
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS)
شمولیت اور تکثیریت کے فروغ میں ائمہ کا کردار نہایت اہم
بہاولپور: ایک مشاورتی اجلاس میں علما اور ماہرین نے اس امر پر زور دیا کہ معاشرے میں سماجی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے نچلی سطح پر ائمہ اور مذہبی رہنماؤں کا “انسانی احترام” اور شمولیت (Inclusivity) کے تصورات کو عام کرنے میں کلیدی کردار ہے۔
شرکا کا کہنا تھا کہ سیاسی عدم برداشت بھی بڑھتی ہوئی انتہاپسندی میں اضافہ کر رہی ہے، جس سے نمٹنا ضروری ہے، اور ایک پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے ریاست کو بھی اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
یہ خیالات اسلام آباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کے زیرِ اہتمام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (IUB) میں منعقدہ مذاکرے “پل باندھنا: برداشت اور شمولیت پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت” کے دوران سامنے آئے۔
مکالمے میں اساتذہ، مذہبی علما، صحافیوں، اقلیتی برادریوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد مذہبی عدم برداشت اور امتیازی سلوک سے متعلق چیلنجز کی نشاندہی، سماجی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کے فروغ کے لیے بہترین عملی مثالوں کا تبادلہ، اور ایک زیادہ جامع (Inclusive) معاشرے کی تشکیل کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنا تھا۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے شعبۂ علومِ قرآن کے چیئرمین پروفیسر ضیاء الرحمٰن نے کہا کہ انتہاپسندی کسی بھی شکل اور کسی بھی دائرے میں قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے مزید کہا، “معاشرے میں تکثیریت کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں دوسروں کو جگہ دینا ہوگی۔”
شعبۂ حدیث کے چیئرمین ڈاکٹر غلام حیدر مگھرانہ نے اس بات پر زور دیا کہ توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہیے، اور اس ضمن میں عدلیہ کو غیر جانبدار اور بروقت انصاف فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، “حکومت کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر کے نئی پالیسی تشکیل دینی چاہیے اور اس پر حرف بہ حرف عمل درآمد کرنا چاہیے۔”
شعبۂ فقہ و شریعہ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد سعید شیخ نے کہا کہ مختلف مسالک اور عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان مشترک قدروں کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، “نفرت پھیلانے والوں کی اصلاح اور رہنمائی (کاؤنسلنگ) کی اشد ضرورت ہے۔”
جامعہ اسد بن زرارہ کے پرنسپل مفتی محمد مظہر شاہ اسدی نے معاشرے میں برداشت اور امن کے فروغ کے لیے رویّوں میں تبدیلی پر زور دیا۔
بہائی کمیونٹی کے نمائندے مبین شیراز نے نصابِ تعلیم پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس میں باہمی اشتراک، برداشت اور تکثیریت سے متعلق اسباق شامل کیے جائیں۔ بہاولپور کی کیلوری بیپٹسٹ چرچ کے ریورنڈ مناور شہزاد عمر نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا کے تمام مذاہب نفرت نہیں بلکہ امن کا پیغام دیتے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبۂ سیاسیات کے چیئرمین ڈاکٹر شکیل اختر نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 19 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کو تقریباً سات مختلف شرائط کے ساتھ یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان “پابندیوں کی واضح تعریف ہونی چاہیے” اور ان کا اطلاق تمام شہریوں پر یکساں ہونا چاہیے، جبکہ موجودہ حالات میں یہ دونوں شرائط پوری نہیں ہو رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اخلاقیات اور شائستگی” کے مبہم تصورات نے سوال اٹھانے کے عمل کو محدود کر دیا ہے، جو شمولیت اور برداشت کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔
شعبۂ عالمی مذاہب و بین المذاہب ہم آہنگی کی چیئرپرسن ڈاکٹر سجیلہ کوثر نے کہا کہ نچلی سطح پر “انسانی احترام” اور شمولیت کے تصورات کو فروغ دینے میں ائمہ مساجد اور کمیونٹی رہنماؤں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا، “مختلف برادریوں کے درمیان مکالمہ ہی رابطوں کے خلا اور غلط فہمیوں کو ختم کر سکتا ہے۔”
تنظیم المدارس اہلِ سنت جنوبی پنجاب کے ناظم مفتی محمد کاشف نے کہا کہ بڑھتی ہوئی سیاسی عدم برداشت بھی انتہاپسندی کی ایک شکل ہے، جس سے نمٹنا معاشرے میں تکثیریت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔
پیپس کے صدر محمد عامر رانا نے کہا کہ بامعنی مکالمے کے آغاز کے لیے علمی اور تحقیق پر مبنی معلومات ناگزیر ہیں، اور یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ آیا مدارس اور جامعات جیسے ادارے اس نوعیت کی علمی تربیت مؤثر انداز میں فراہم کر رہے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ معاشرے کو محض ریاست کی طرف دیکھنے کے بجائے خود بھی پہل کرنی چاہیے۔