
ماسکو اس وقت ڈونیٹسک کے تقریباً 75 فیصد اور ہمسایہ لوہانسک کے لگ بھگ 99 فیصد حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ یہ دونوں خطے مجموعی طور پر ڈونباس کہلاتے ہیں۔
مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ڈونباس سے متعلق معاہدہ ابھی “حل طلب ہے، لیکن ہم اس کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔”
ان علاقوں کا مستقبل پورے مذاکراتی عمل میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے، کیونکہ روس مسلسل اس بات پر قائم ہے کہ وہ ڈونباس پر مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور اس معاملے میں کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔ پیر کے روز کریملن نے ایک بار پھر کہا کہ یوکرین کو ڈونباس کے اُس حصے سے اپنی فوجیں واپس بلانی چاہئیں جو اب بھی کیف کے کنٹرول میں ہے۔ یوکرین کا مؤقف ہے کہ اس علاقے کو یوکرینی فورسز کی نگرانی میں ایک آزاد معاشی زون بنایا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر ماضی میں یوکرین کے زیرِ قبضہ علاقوں کے بارے میں اپنے مؤقف میں کئی بار تبدیلی کر چکے ہیں۔ ستمبر میں انہوں نے مبصرین کو حیران کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین شاید اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے سکتا ہے، تاہم بعد میں انہوں نے اس بیان سے رجوع کر لیا۔
اتوار کے مذاکرات کے بعد مارالاگو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے ایک بار پھر کہا کہ مجموعی امن معاہدہ 90 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے، یہ وہی اندازہ ہے جو انہوں نے اپنے دورے سے پہلے بھی دیا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ ایک اہم نکتے، یعنی یوکرین کے لیے سکیورٹی ضمانتوں، پر پیش رفت ہوئی ہے۔
زیلنسکی نے پیر کو کہا کہ امریکہ نے 15 سال کے لیے (قابلِ توسیع) سکیورٹی ضمانتوں کی پیشکش کی ہے، تاہم کیف چاہتا ہے کہ یہ مدت 50 سال تک بڑھانے کا اختیار بھی موجود ہو۔ ان کے مطابق یوکرین چاہتا ہے کہ امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی یہ ضمانتیں نافذ ہو جائیں، جیسا کہ خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا۔
امریکہ نے تاحال اس مدت کے بارے میں کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔ اتوار کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ معاہدہ قریب ہے اور انہیں توقع ہے کہ یورپی ممالک اس عمل میں “بڑا حصہ” ڈالیں گے، جبکہ امریکہ بھی تعاون فراہم کرے گا۔
ٹرمپ نے امریکہ، روس اور یوکرین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے امکان کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ “صحیح وقت پر” ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ امریکی صدر یوکرین-روس جنگ کو ان تنازعات کی فہرست میں شامل کرنا چاہتے ہیں جن کے خاتمے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے یا ناکام ہو گئے تو جنگ جاری رہ سکتی ہے۔
زیلنسکی نے تجویز دی کہ یوکرینی حکام جنوری میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر سکتے ہیں، ممکنہ طور پر یورپی رہنماؤں کے ساتھ، تاکہ امریکہ اور یوکرین کے وفود آئندہ مذاکرات کے منصوبوں کو حتمی شکل دے سکیں۔
یورپی اتحادیوں کے ساتھ اجلاس کے بعد ایک فون کال میں یورپی کمیشن کی صدر ارسولا فان ڈیر لیئن نے فلوریڈا مذاکرات میں “اچھی پیش رفت” کو سراہا، جبکہ اس بات پر زور دیا کہ یوکرین کو پہلے دن سے ہی “فولادی سکیورٹی ضمانتیں” ملنی چاہئیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی کہا کہ یوکرین کے اتحادی اگلے ماہ پیرس میں سکیورٹی ضمانتوں پر بات چیت کے لیے ملاقات کریں گے۔
میکرون نے زیلنسکی اور ٹرمپ سے بات کے بعد ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا: “ہم جنوری کے آغاز میں پیرس میں ‘کوالیشن آف دی ولنگ’ کے ممالک کو جمع کریں گے تاکہ ہر ملک کی ٹھوس شراکت کو حتمی شکل دی جا سکے۔”
ادھر پیر کے روز زیلنسکی نے کہا کہ کسی بھی امن منصوبے کو یوکرین میں ریفرنڈم کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے 60 روزہ جنگ بندی ضروری ہوگی تاکہ ووٹنگ ممکن ہو سکے۔
تاہم روس عارضی جنگ بندی کے حق میں نہیں، اور یہ مسئلہ مبینہ طور پر اتوار کے اجلاس سے قبل ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان فون کال میں بھی زیرِ بحث آیا۔
روس کے سابق امریکی سفیر یوری اوشاکوف نے کہا کہ ٹرمپ نے کریملن کے مؤقف کو سنا اور دونوں صدور اس بات پر متفق ہوئے کہ یورپی یونین اور یوکرین کی جانب سے تجویز کردہ عارضی جنگ بندی تنازع کو طول دے گی۔
امریکی صدر، جنہوں نے یہ کال خود کی تھی، نے تسلیم کیا کہ ماسکو ایسی جنگ بندی میں کم دلچسپی رکھتا ہے جو یوکرین کو ریفرنڈم کرانے کا موقع دے۔
انہوں نے کہا، “میں اس مؤقف کو سمجھتا ہوں۔”
مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں، تاہم ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خیال میں روسی رہنما “یوکرین کی کامیابی چاہتے ہیں۔”
دوسری جانب یوکرین میں رات بھر حملے جاری رہے۔
کیف کے مطابق اتوار کو روس کی جانب سے 25 فضائی حملے کیے گئے، جن میں سے 21 کو مار گرایا گیا۔
روس کی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ اتوار کی شب 89 UAVs تباہ کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر بریانسک کے علاقے میں تھیں۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ کیف نے راتوں رات نووگوروڈ کے علاقے میں صدر ولادیمیر پوٹن کی سرکاری رہائش گاہ پر ڈرون حملہ کیا۔ لاور...