
اسد ہاشم
کالا شاہ کاکو، پاکستان کے ملک الموت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک نیک انسان ہی نہیں بلکہ خدا کا پسندیدہ فرشتہ تھا جو انسانوں کے جسم و جان کے رشتے کو ختم کرنے کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ اچھے اور نیک انسانوں کی روح قبض کرنے آتا تو یہ فرشتہ بہت دوستانہ شکل میں نمودار ہوتا اور ایسا لگتا جیسے کہ سفر میں آسانی پیدا کرنے آیا ہے۔ گناہ گاروں کے سامنے یہ فرشتہ خوفناک شکل میں نمودار ہوتا ۔ پاکستان کے قیدیوں کےلیے یہ فرشتہ کوئی اور نہیں بلکہ صابر مسیح ہے۔2006 سے اب تک پاکستان کے تین جلادوں مین سے ایک صابر مسیح ہیں جو اب تک ڈھائی سو سے زیادہ قیدیوں کو پھانسی دے چکے ہیں۔ مسیح کا تعلق ہی جلاد فیملی سے ہے۔ ان کے والد صادق بھی چالیس سال تک جلاد رہے اور 2000 میں ریٹائر ہوئے۔ ان کے دداد اور دادا کے بھائی بھی یہی کام کرتے تھے۔ ان کے دادا کے بھائی نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ تارہ مسیح بھٹو کو پھانیس دینےبھاولپور سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل پہنچے تھے کیونکہ صادق مسیح نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ صابر مسیح کو معلوم تھا کہ وہ اس فیملی بزنس کا حصہ بنیں گے۔ انہوں نے پہلی پھانسی 22 سال کی عمرمیں دی۔ اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے قبل انہوں نے صرف ایک بار ایک لاش کو لٹکتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ لیور کھینچتے وقت وہ اس بارے میں نہیں سوچتے۔ بلکہ ان کی توجہ جیل سپرنڈینٹ کے اشارے کی طرف ہوتی ہے۔
صابر مسیح
فخر کا اظہار کرتے ہوئے صابر مسیح نے بتایا کہ ڈیوٹی پر آتے ہی پہلے کچھ ماہ میں انہوں نے تقریبا 100 افراد کو پھانسی دی تھی۔ 2008 کے بعد کچھ عرصہ کےلیے صابر مسیح کا کام رک گیا کیونکہ پیپلز پارٹی نے پھانسیوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی تھی۔ 2014 میں یہ پابندی ہٹا دی گئی جس کا باعث پشاور میں آرمی پبلک سکول کا واقعہ تھا جس میں 150 سے زیادہ بچوں کو قتل کیا گیا۔ اس حملے سے پوری قوم سکتے میں آ گئی اور حکومت نے فوری طور پر پابندی ختم کر دی تا کہ ٹی ٹی پی کے مجرموں کو جلد از جلد ان کے جرائم کی سزا دی جائے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں مسیح کو لاہور سے فیصل آباد بلایا گیا اور انہوں نے دو دہشت گردوں کو لٹکایا۔اس دن سے اب تک پاکستان میں ہیومن رائٹ کمیشن آف پاکستان کے مطابق 471 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے ۔ پچھلے سال پاکستان میں 87 افراد کو پھانسیاں دی گئیں اور دنیا کے پھانسی دینے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر رہا۔ تمام کی تمام پھانسیاں پنجاب کے صوبہ میں دی گئیں۔جب پوچھا گیا کہ کیا وہ گنتے ہیں کہ کتنے افراد کوانہوں نے پھانسی دی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جب جیل کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے تو انہیں یاد رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب پوچھا گیا کہ پھانسی دیتے ہوئے وہ کیسا محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میرا یہ کام قانونی ہے اس لیے میں کچھ خاص محسوس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ یہ صرف ایک نوکری ہے جو میں ملک کے لیے کر رہا ہوں۔ان کے مطابق اہم بات ہے کہ مجرم کو اپنی صفائی کا موقع ضرور ملنا چاہیے پچھلے سال لاہور ہائی کورٹ نے دو بھائیوں کو باعزت بری قرار دیا ۔ دونوں بھائی غلام قادر اور غلام سرور پر قتل کا الزام تھا اور وہ دس سال اپنی سزا بھگت چکے تھے ۔ لیکن افسوس، جب انہیں بری کیا گیا اس سے پہلے ہی انہیں پھانسی ہو چکی تھی۔جب انہیں مجرم کی برائت کا پتہ چلا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر کسی کو اس پر پریشانی ہے تو وہ جیل سپرنڈینٹ ہی ہوسکتا ہے یا پھر چیف منسٹر یا ڈپٹی چیف منسٹر۔ میں نے تو بلیک وارنٹ جاری کیے۔ اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اندر سے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ ایک لحاظ سے مسیح یہ مانتے ہیں کہ وہ قیدیوں کو اپنا فیملی ممبر کی طرح سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں: میں ان کے چہرے دیکھتا ہوں۔ اس وقت وہ رو رہے ہوتے ہیں، اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ معافی بھی مانگتے ہیں اور جیل سپرنڈینٹ سے ہر اس شخص تک معافی مانگتے ہیں جو ان کی سن سکتا ہو۔ وہ اندر سے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قسمت میں لکھا قبول کرنا ہو گا۔ کچھ دوسرے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کام اور اعمال بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو پھانسی مسیح کو ہمیشہ یاد رہے گی وہ ان دو مردوں کی پھانسی ہے جنہیں عدالت نے 2004 میں پرویز مشرف پر حملہ کرنے کے جرم میں سنائی تھی۔ ان مجرموں کو 2014 میں پھانسی دی گئی۔ وہ اپنے پھانسی کے وقت سے 12 منٹ پہلے میرے پاس آئے۔ وہ نعرے لگا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے جیسے ان کی عید آ گئی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنت جانے والے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ٹھیک کیا اور وہ بہت خوش تھے یہ حملے کرنے کی وجہ سے۔جب پوچھا گیا کہ ان لوگوں اور مسیح کے بیچ میں صابر مسیح کیا فرق دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا ۔ میں جو کرتا ہوں وہ ایک مختلف کام ہے۔ میں قانون کے مطابق سزا پانے والے لوگوں کو قتل کرتا ہوں ۔ قاتل اپنی مرضی سے لوگوں کو قتل کرتا ہے لیکن میں اپنی مرضی سے پھانسی نہیں دیتا۔ پوری ریاست اور صدر کی حمایت میرے ساتھ ہوتی ہے۔ میں اپنی مرضی سے قتل نہیں کرتا۔ ہمارے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔