
سندھ میں کل تک اگر کوئی واحد زندہ شخصیت تھی جس کا احترام تمام سیاسی، فکری اور سماجی نقطہ نظر رکھنے والے ایک ہی طرح کرتے تھے تو وہ بلا شبہ محمد ابراہیم جویو کی تھی۔ ایک سو دو برس کے اس سندھی ادبی، فکری اور تعلیمی لیجنڈ کی وفات جمعرات نو نومبر کو حیدرآباد میں ہوئی۔
محمد ابراہیم جویو کی سندھ سے والہانہ محبت اور سیاسی ذہنی پختگی نے انہیں کم عمری میں ہی ممتاز شخصیت بنا دیا تھا۔ انیس سو اکتالیس میں جب ان کی عمر صرف چھبیس برس کی تھی اور ان کو کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام میں نئی نئی ٹیچر کی نوکری ملی تھی، تو انھوں نے ایک مختصر کتاب لکھی "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم”۔ ان کی اس تحریر پر اس وقت کے حکمران سخت ناراض ہوگئے اور وزیر تعلیم، پیرالہٰی بخش نے انھیں ملازمت سے نکال دیا۔ لیکن جویو صاحب کو جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی سکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔
محمد ابراہیم جویو کی اس پمفلیٹ نما کتاب نے بیشتر مبصرین کے بقول سندھ میں جدید وطن دوستی کی بنیاد رکھی اور انھیں سندھ کے دانشور اور تعلیمی حلقوں میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
انھوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں کتابیں، مضامین، ادبی اور ثقافتی مقالے اور پمفلٹس تحریر کیے اور سندھ میں نوجوانوں کو پہلے انگریزوں اور بعد میں آمر حکمرانوں اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی ایک سرگرم کارکن رہے اور آخر وقت تک تھیوسوفیکل سوسائٹی سے وابستہ رہے۔
محمد ابراہیم جویو 13 اگست انیس سو پندرہ کو کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے انیس سو چونتیس میں میٹرک کیا۔ جبکہ انیس سو اڑتیس میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ اس زمانے میں سندھ کے بڑے تعلیمی ادارے بمبئی یونیورسٹی کے زیر انتظام تھے۔ بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لیے بمبئی جو اب ممبئی ہے وہاں چلے گئے۔
محمد ابراہیم جویو نے ٹھٹھہ کے سکول کے بعد حیدرآباد کے ٹریننگ سکول میں تدریس کا کام جاری رکھا جبکہ انیس سو اکاون میں انھیں سندھی ادبی بورڈ کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ انیس سو اکسٹھ میں انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی تاہم انھیں دوبارہ اسی ادارے کی سربراہی کی پیشکش کی گئی جو انھوں نے قبول کی۔ وہ انیس سو تہتر تک اس ادارے کے سیکریٹری رہے۔ جویو صاحب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔
انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جبکہ انھیں متعدد یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں بھی دی گئیں۔
سندھ کی سیاسی تحریکوں میں بھی محمد ابراہیم جویو پیش پیش رہے اور جی ایم سید اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ متعدد دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔
لیکن محمد ابراہیم جویو کا سب سے اہم کام یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بے شمار مغربی مصنفوں کا سندھی میں ترجمہ کیا اور بے شمار نوجوانوں کو ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کی جانب متوجہ کیا۔ انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں لکھیں جن میں روسو، والٹئیر، ٹی ایس ایلیٹ، شیلے، فرانسس بیکن، رابندر ناتھ ٹیگور سمیت کئی بڑے مصنفین کی کتابوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔
وہ گزشتہ سات دہایوں سے سندھ اور سندھیوں کے لیے لکھ رہے تھے اور ان کی یہ محبت بھری مشقت ہی ان کی جانب سے خطے کے لیے چھوڑا جانے والا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اور یہ اثاثہ سندھ کے عوام آنے والی صدیوں تک عزیز رکھیں گے۔
BBC
آذربائیجان کے صدر الہام علییوف نے چین کے شہر تیانجن میں پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کہا کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ آذربائیجان کے...