ضمیر کی آنکھوں سے دیکھیں سب کچھ نظر آئیگا، چیئرمین سینیٹ

880

ایوان بالا میں عوامی اہمیت کے حامل ایشو پر بحث کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عجیب سی پرُ اسراریت ہے۔ ہر طرف کنفیوژن ہے۔ کوئی حلقہ بندیوں کے بل کی بات نہیں کر رہا۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا تھا کہ چار پانچ دن تک یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، کوئی جمہوریت مخالف ہاتھ محسوس ہو رہا ہے جونظر نہیں آرہا ، کوشش کر رہا ہوں کہ دیکھوں کو کیا ہو رہا ہے۔

تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں، تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں یا یہ ایوان اب ایسا کوئی کام نہیں کریں گی جس میں تاریخ میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ چیئرمین سینٹ نےکہا کہ ضمیر کی نظر سے دیکھیں تو سب کچھ نظر آئے گا اکثرروحانیت میں صوفی ازم میں چیزیں نظر نہیں آتیں، صرف محسوس ہوتی ہیں، دیکھنے سے زیادہ ان کا تعلق ہوتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سایہ غائب ہوتا ہے۔ خبر شائع ہوتی ہے کہ اتحادی افواج کا اہم ایک اجلاس اتوار کو ہو رہا ہے۔ سعودی عرب ہما را برادر ملک ہے، پاکستان کوئی ایسی حمایت کا یقین نہ دلائے جو ہمارے حق میں بہتر نہ ہو، کوئی کمٹمنٹ کرنے سے پہلے وزیر دفاع وہ پلان اس ایوان میں رکھیں تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔

چیئرمین نے کہا کہ اس مسئلے پر جب بحث ہوتی تھی تو اس وقت متعلقہ وزیر نے کہا تھا کہ ٹی او آر اس ایوان میں رکھیں گے، رضا ربانی نے شہید میجر اسحاق اور شہید آئی جی شوکت نور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے بزدلانہ حملے پاکستانی عوام کے حوصلے کو پست نہیں کرسکتے۔ سینیٹر اعظم خان نے کہا کہ حلقہ بندیوں کی ترمیم پر آپ نے رولنگ دی تھی حلقہ بندیوں کی ترمیم ایک مسئلہ بن چکا ہے لوگ فائنل نہیں کرنے دے رہے۔ چیئرمین نے کہا کہ سیاسی جماعتوں پرتہمت لگانا منع ہے یہ مناسب بات نہیں ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ ہے ، بلیک فرائیڈے کی سیل لگی ہے، جمعۃ المبارک کو بلیک کہنا غلط ہے، یہ بینرز اترنے چاہیں، دھرنے کی و جہ سے سکول کے بچوں کو چھٹیاں دی جائیں، لبیک یارسول اللہ والے بچوں پر رحم کریں۔چیئرمین سینٹ نے اجلاس پیر4 بجے تک ملتوی کردیا۔تحریک التوا پر بحث کرتے ہوئے ارکان نے سی پیک کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سلسلہ میں بنائی گئی کمیٹیاں موثر نہیں آزاد تجارتی معاہدوں پر نظرثان کی جائے، سی پیک پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔

ہمیں آزاد تجارتی معاہدوں سمیت تمام امور میں ملکی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہئے ، سی پیک اور گوادر کے تناظر میں ہمیں اپنے کاروباری مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ فری ٹریڈ کے معاہد ے سے ہمیں نقصان ہورہا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے فل ہائوس کی کمیٹی بنائی جائے نعمان وزیر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا معاملہ پاکستان کے مستقبل کے لئے اہم ہے۔ فری ٹریڈر معاہدہ کوئی سات آٹھ ممالک کے ساتھ کیا ہے اور ہم ان معاہدوں کی وجہ نقصانات میں جارہے ہیں۔ ہم معاہدوں میں سٹیک ہولڈروں کو ساتھ نہیں رکھتے۔ چین کے ساتھ جاری تجارت9 ارب ڈالر کا نقصان ہے۔ سی پیک میں بھی کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ہم معاہدہ کے مطابق صرف3 فیصد حاصل کر سکیں گے۔ چین کے بھارت کے ساتھ 50 ارب کی تجارت کررہا ہے۔ پاکستان نے نان ٹیرف بیریئر کو دیکھتے بھی نہیں۔ مشینری کی درآمد کی وجہ سے خسارہ بڑھ گیا۔ ہمارے پیداواری اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ ہم ڈالر کی فلوئنگ نہیں کررہے چین کو 23 سال کی ٹیکس چھوٹ دے رہے ہیں۔ مقامی تاجروں کو کوئی نہیں دے رہے۔ سری لنکا میں چین نے پورٹ اپنے نام کر لئے۔ کلثوم پروین نے کہا کہ فری ٹریڈر کا نظریہ اپنے ملک کیلئے مزید نقصان کرتا ہے۔ کسی ملک کے ساتھ بھی معاہدہ ہوا س کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ چند برکس بننے سے بلوچستان خوشحال نہیں ہوگا۔ چین اپنے اڑھائی کروڑ پاکستان لائے گا۔ وہی لوگ ٹریڈ کرینگے۔ تمام کاروبار وہی کرینگے۔ چین سے جو چیز ہمیں دی جارہی ہے اس کی کوالٹی انتہائی خراب ہے۔

ان کو پتہ ہے یہاں کےلوگ سورہے ہیں۔ اپنے حالات کے پیش نظر ہمارے ہاں روزگار نہیں۔ ہم نے اپنے ملک کو مضبوط کرنا ہے گوادر میں چین تمام افرادی قوت لایا ہے۔ گوادر کے لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے۔ سی پیک سے تمام صنعتیں بے حال ہو جائیں گی۔ چین نے بھارت کے ساتھ برابری کے ساتھ معاہدہ ہے۔ اس سلسلہ میں سول کمیٹی کا اجلاس ہوا رکھیں۔ آج بھی خسارہ11 ارب ہے۔ اس سلسلہ میں سول کمیٹی کا اجلاس ہے بلوچستان میں کوئی صنعت نہیں کوئی کاروبار نہیں پھر اگر کوئی احتجاج ہوتا ہے تو پھر ہمیں مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ چیئرمین نے کہا اس سلسلہ میں سی پیک کی کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ دو کمیٹیاں سی پیک کو دیکھ رہی ہیں۔ آپ سینٹ کی کمیٹی کے سامنے اپنے خدشات لے جائیں۔ کلثوم پروین نے کہا کہ ان کمیٹیوں کا رزلٹ کچھ نہیں۔ سردار موسیٰ اعظم نے کہا ہم سیاسی کارکن ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کا چیرمیں ہمارے ہمارے صوبہ سے نہیں۔ چین کے ساتھ معاہدہ گوادر کی وجہ سے ہوا۔ گوادر کی موجودگی کا فائدہ گوادر کے عوام کو نہیں مل رہا ہے۔ سینٹ کمیٹیوں کے چیئرمین رعایت کرتے ہیں کوئی فائدہ نہیں۔

ہمارے معاہدوں میں بے شمار خامیاں ہیں معاہدہ کرنیوالوں کو غریب عوام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جب تک پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں ہوگی مشکلات ہماری مقدر رہے گی۔ اس ملک کو فرشتہ چلا رہے ہیں۔ شہیدوں کے خون کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے بزور طاقت سی پیک کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ ہم نے قطر کے ساتھ مہنگا معاہدہ کیا ہم کو پارلیمنٹ کے ذریعے معاہدے کرنا ہونگے سینیٹر وسیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سینیٹر کلثوم پروین نے بہت سے حقائق بتائیں ہیں۔ گوادر اور ایک عدم توازن کا معاہدے پاکستان سے تمام ٹیکس چین وصول کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ان پر کوئی ٹیکس نہیں۔منصوبہ بندی کےب غیر ہم کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ محسن عزیز نے کہا ایف ٹی اے جب دستخط کرتے ہیں تو ہر ملک کا مفاد سامنے رکھا جاتا ہے۔ ان معاہدوں میں بہت سی چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہم بغیر پلاننگ کے معاہدہ کرتے ہیں۔ سیکرٹری کی سطح پر لوگ معاہدہ کرتے ہیں ان کوکچھ علم نہیں ہوتا ہمیں پیداواری لاگت کو دیکھنا ہوگا۔ کیوں بڑھ رہی ہے بھارت نے ہم کوMFN ریاست کا درجہ دیا ہے۔ مگر ہماری برآمد وہاں پر کم ہوگی۔ اور ہمارے پاس برآمد وافر نہ ہو تو فری ٹریڈ معاہدہ نہیں کرنا چاہئے۔ ڈالر کو فلوئنگ کرنے سے ہمیں نقصان ہوگا۔

فرحت اللہ بابر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں میں بزنس کمیٹی کو شامل نہیں کیا۔ کمیٹی کا ممبر ہوں پوچھیں فزیبلٹی بتا رہے مگر شیئر نہیں کرسکتے۔ جب کمیٹی میں لانگ ٹرم معاہدہ پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں آپ کو ہٹا نہیں سکتے۔ گوادر پورٹ کی آمدنی کتنی چین کو ملے گی۔ کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کتنی پاکستان کو ملے گی۔ سی پیک کے حوالے سے سوال کے جواب میں نہیں ملتے۔ نیپرا نے اپنے اخراجات میں تجاوز کرتے ہوئے سی پیک سکیورٹی کی قیمت بل میں ڈال دی۔ گوادر میں تو پانی نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں معاشی منصوبہ ہے پانی کو صاف کرنے میں 50 روپے لگتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اس کے معاشی فائدے کم ہیں۔ اس سے معاشی فائدہ صوبہ کو کتنا ہوگا۔ ان مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے اس معاملہ میں شفاف طریقے سے ہونا چاہئے۔ وفاقی وزیر بزنجو نے ۔ فرحت اللہ بابر کے سوال کے جواب میں کہا مین نےگوادر پورٹ کی آمدنی کے بارے میں واضح جواب دیا ہے۔40 سال کے بعد پورٹ کی ملکیت پاکستان کو مل؛جائے گی۔ جاوید عباسی نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے 2 کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں تمام تفصیلات کمیٹی میں آنی چاہئے۔ فرحت اللہ بابرکو چا ہئے کمیٹی سے پوچھے ہم دیکھیں گے کون اطلاعات نہیں دینا چاہتا۔

سی پیک ہمارے پاکستان کے پیسے ہے۔ سی پیک سےپاکستان میں خوشحالی آئے گی۔18،18 گھنٹہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی توجہ اس میں بہتری آتی ہے۔ اگر کسی صوبہ کے خدشات اپنے وزیر اعلیٰ کو بتائیں۔ چیئرمین نے کہا کہ اب اس پر پیر کو بحث ہوگی۔قانون انسداد الیکٹرانک جرائم 2016ء کی دفعہ 53کے تحت وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی سرگرمیوں سے متعلق ششماہی رپورٹ ایوان بالا میں پیش کر دی گئی جسے چیئرمین سینٹ ان کیمرہ غور کیلئے متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دی۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے سنیٹر میاں محمد عتیق شیخ کی کہ عالمی بینک کی سالانہ فلیگ شپ رپورٹ میں پاکستان کی 172 ویں پوزیشن سے متعلق تحریک التواء بحث کیلئے مسترد کر دی۔

 

jang

مزید خبریں

آپ کی راۓ