مشکلات مزید بڑھ گئیں

712

ملکی سیاست کے داخلی تپش کے ماحول میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ نے آئینی مدت پوری کرنے کا سنگ میل عبور کرنے والی حکومت کے لئے کچھ نئی مشکلات پیدا کردی ہیں، جس پر وکلا برادری کے ساتھ سیاسی حلقوں کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے جو فہمیدہ عناصر کے لئے سنجیدگی اور افسردگی کے ساتھ ماضی کے عہد اقتدار کے خزاں رسیدہ ایام کی یادیں تازہ کررہا ہے جب سپریم کورٹ کو کنگرو کورٹ، فاضل ججز پر چمک کے الزامات،چیف جسٹس کوجیل بھیجنے کےمنصوبے بنائے گئے تھے،آج ایک جانب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہےتو جمہوری عمل کا یہ تسلسل اہل پاکستان کے لئے لمحہ جانفزا ہے لیکن دوسری جانب سپریم کورٹ کے فاضل جج کے گھر پر فائرنگ کا واقعہ اس پس منظر میں اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ حالات میں لوگ محسوس کررہے ہیں کہ اداروں کے درمیان ایک تنائو کی صورت پیدا ہوچکی ہے۔ عجب سیاسی منظر نامہ ہے کہ جو لوگ حکومت میں ہیں وہی اپوزیشن کا کرداربھی ادا کررہے ہیں، گزشتہ ماہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کی

ملاقات ہوئی تو مبصرین چیف جسٹس سے وزیر اعظم کی ملاقات کوخوش آئند قرار دے کر توقع کررہے تھے کہ اس کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے اور اداروں کے درمیان تعلقات کی صورتحال بہتر ہوگی تاہم حالیہ دنوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے سرکاری وسائل کے بے دردی سے استعمال اور بھاری مشاہروں اور بے انتہا مراعات پر بھرتیوں کےخلاف ازخود کیس کی سماعت کے دوران کئی ایسے ہوشر با انکشافات سامنے آئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ جو ڈیشل ایکٹوازم سےانتظامی ادارے بہر حال متحرک ہوئے ہیں،سرکاری ہسپتالوں کی حال زار بدلنے کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ لوٹ مار اورکرپشن کلچر کی حوصلہ شکنی ہونے لگی ہے۔ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر توجہ مبذول ہورہی ہے۔ اس پہلو سے عدالت کی فعالیت سے جمہوری سیاسی نظام کی بہتری ہوگی۔ اس رائے سے ہر کوئی اتفاق کرےگاکہ جب سیاستدان ذمے داری کا احساس کریں گے تو عدالت کو معاملات پر ایکشن لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر جب انتظامیہ اورحکومت عوامی مسائل کو نظر انداز کرکے بے حس ہوجائیں تو پھر کوئی تو یہ خلا ضرور پُر کرے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ کرچکے ہیں کہ دستور کی حکمرانی میں ہی نجات ہے اور پاکستان میں صرف قانون کی حکمرانی ہوگی۔موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقات ملک کے تمام اداروں کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کی فضا شروع دینے کے غیرمبہم اور واضح پیغام کی نشاندہی کررہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کے عزم سے قوم کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ اداروں میں تنائو کو مفاہمت میں بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ محاذ آرائی سے جمہوریت اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عدلیہ معزز ادارہ ہے جسے آئین کی تشریح کا حق حاصل ہے۔ افواج پاکستان ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کےلئے فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ریاست کے سب ستون مستحکم ہوں گے تو ملک میں سیاسی انتشار، بد اعتمادی اور بد گمانی کی فضا تحلیل ہوگی اور لوگوںمیں نیا اعتماد پیدا ہوگا۔ انتخابات سے قبل سب ہی اسٹیک ہولڈرز کو میاں شہباز شریف اورچوہدری نثار علی کی باتوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ اداروں کے مابین بڑھتے فاصلے ختم کئے جاسکیں۔

مزید خبریں

آذربائیجان کے صدر الہام علییوف نے چین کے شہر تیانجن میں  پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کہا کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ آذربائیجان کے...

آپ کی راۓ