آسٹریلیا میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا اُن صحافیوں پر مقدمہ چلایا جائے گا جن کی ایک رپورٹ سے متعلق پولیس نے چھاپے مارے ہیں۔
نشریاتی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پولیس کے چھاپوں اور تلاشی کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اِن چھاپوں کے دوران آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن یا اے بی سی کے دفاتر سے دستاویزات کو قبضے میں لیا گیا ہے۔
اے بی سی نے 2017 میں افشاء ہونے والی کچھ فوجی دستاویزات کی بنیاد پر ایک رپورٹ نشر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا کی فوج پر افغانستان میں ممکنہ جنگی جرائم کے الزام کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے دستاویزات کے افشا یا لیک ہونے کے بارے میں تفتیش کے لیے بدھ کو اے بی سی کے دفاتر پر چھاپہ مارا تھا۔
آسٹریلیا کی وفاقی پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ نیوز رپورٹ میں ملک کی سلامتی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
بی بی سی نے بھی آسٹریلیا میں پولیس کی جانب سے اے بی سی کے دفاتر پر چھاپوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں آزادیِ صحافت پر ایک انتہائی ’پریشان کن حملہ‘ قرار دیا ہے۔
آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ یہ چھاپے ملک میں میڈیا کی آزادی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
‘یہ ایک انتہائی سنجیدہ پیش رفت ہے اور یہ پریس کی آزادی اور ملکی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق باقاعدہ عوامی جانچ پڑتال کے لیے جائز طور پر تشویش پیدا کرتی ہے۔’
بی بی سی نیوز نے بھی اپنے بیان میں اِسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘اے بی سی میں ہمارے پارٹنرز کے خلاف پولیس کا یہ چھاپہ آزادیِ صحافت پر حملہ ہے اور ہمارے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔’
Courtesy BBC