وزیراعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی پر کیا اعتراضات ہیں؟

909

وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی اور اس کی تفتیش پر اعتراضات میں یہ بھی کہا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے برطانیہ میں باہمی قانونی معاونت کے لیے جس فرم کی خدمات حاصل کیں وہ ان کے رشتہ دار اختر راجا کی ہے جو برطانیہ میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ہیں۔

اُنھوں نے جے آئی ٹی میں شامل انٹرسروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی کے نمائندے برگیڈیئر نعمان سعید پر اعتراض میں موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے ادارے میں حاضر سروس افسر نہیں تھا۔

’مسٹر سپیکر نہیں مائی لارڈز کہیں‘

’رپورٹ غیرجانبدار نہیں، جے آئی ٹی نے حدود سے تجاوز کیا‘

کیا حکمران جماعت میں دراڑیں پڑ رہی ہیں؟

بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے نمائندے کا بطور ایک سورس تعیناتی کا انکشاف ہوا ہے اور ایسے ملازم کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی جبکہ سرکاری دستاویزات میں نمائندے کی تنخواہ کا بھی ذکر نہیں۔

اعتراض میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کا اپنی رپورٹ کی جلد 10 کو خفیہ رکھوانا بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ ان اعتراضات میں عدالت عظمیٰ سےاستدعا کی گئی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی جلد نمبر 10 کی کاپی فراہم کی جائے۔

ان اعتراضات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام تفتیشی عمل متعصبانہ، غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہے اس کے علاوہ وزیراعظم کی ذات اور نوکری سے متعلق حقائق تصوراتی اور وزیر اعظم کے خلاف شہادتیں عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے مترادف ہیں۔

اعتراض میں کہا گیا کہ مدعا علیہان کے ٹرائل کے لیے قانون کے مطابق مواد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

وزیراعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ نامکمل اور نقائص سے بھرپور ہے، جبکہ جے آئی ٹی نے عدالت کے سامنے کہا کہ مکمل رپورٹ جمع کروائی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم کی طرف سے اُٹھائے گئے اعتراضات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی طرف سے نامکمل رپورٹ کے باعث مدعا علیہان کے خلاف کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا جا سکتا اور شفاف ٹرائل مدعا علیہان کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اُنھیں آئین نے دیا ہے۔

وزیر اعظم نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ چونکہ اس رپورٹ میں قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اس لیے درخواست کو منظور کرتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

مزید خبریں

آپ کی راۓ