لوگ چاہے کمپنیاں بند کر دیں ۔چیف جسٹس نے بڑا اعلان کر دیا

578

منرل واٹر کمپنیوں سے زیر زمین پانی کی مد میں چارجز وصولی کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ معاملہ اب ٹیکس سے بڑھ کر اسکینڈل کی شکل اختیار کر گیا ہے، آپ لوگ چاہے کمپنیاں بند کر دیں لیکن زیر زمین پانی آلودہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اربوں روپے کا پانی نکال لیا گیا، اس لوٹ مار کا حساب کون دے گا۔

واٹر کمپنی کے نمائندے سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے کہا آپ اپنی انڈسٹری بند کر دیں، ایک صنعت کے فائدہ کے لئے قوم کا نقصان نہیں کرسکتے، آپ اپنے کاروبار کے لیے خام مال مفت کیوں لے رہے ہیں، آپ کے منافع کے لیے قوم کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے واٹر کمپنی کے نمائندے کو کہا کہ بوتلوں کے پانی کو بند کر دیں، ہم گھڑے کا پانی پی لیں گے، آپ اس قوم کے مسیحا نہیں، قوم کی فکر چھوڑیں اپنے منافع کی فکر کریں، 30 سال سے آپ واٹر کمپنی کے نام سے فیکٹری چلا رہے ہیں اور اس عرصے میں قوم کا کتنا پانی استعمال کر گئے۔

چیف جسٹس نے کہا ‘چار دفعہ میں نے آپ کے منرل واٹر میں ملاوٹ پکڑی ہے، آپ کے وکیل میرے پاس سفارشیں لے کر آتے رہے’۔

ماہر ماحولیات پروفیسر ڈاکٹر احسن صدیقی نے عدالت کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کمپنیوں کے پاس پانی کی کوالٹی چیک کرنے کے آلات ہی نہیں اور انہوں نے کسی ماحولیات کمپنی سے سرٹیفکیٹ نہیں لیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا مجھے بتائیں بوتلوں والا پانی کیسے تیار کیا جاتا ہے اور بوتل میں بند پانی کی کوالٹی کیا ہے۔

جس پر پروفیسر احسن صدیقی نے بتایا کہ انسان پانی کی ایک بوند بھی پیدا نہیں کر سکتا، ایک کمپنی کا ایک پلانٹ لگ بھگ ایک لاکھ لیٹر ایک گھنٹے میں زمین سے پانی نکال رہا ہے، کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح 100 فٹ سے 400 فٹ پر چلی گئی ہے۔

ڈی جی ماحولیات کے مطابق پانی کی کوئی کمپنی زیر زمین پانی کے استعمال پر ایک روپیہ بھی حکومت کو نہیں دے رہی اور زیر زمین پانی سے صاف پانی حاصل کرنے کے بعد ویسٹ کو پھینک دیا جاتا ہے، ایسا ویسٹ زیر زمین پانی کومزید آلودہ کررہا ہے۔

پروفیسر احسن صدیقی نے کہا دریائے سندھ کے پانی سے بیکٹیریا ختم کر دیا جائے تو یہ بوتلوں سے ہزار گنا بہتر پانی ہے۔

عدالتی معاون نے اس موقع پر کہا کہ پانی کی بوتل کے بجائے زمین سے نکالے جانے والے فی لیٹر پانی پر ٹیکس عائد کیا جائے اور جب سے کمپنیاں پانی نکال رہی ہیں تب سے ٹیکس وصول کیا جائے۔

مزید خبریں

آپ کی راۓ