بارش کی چند بوندیں ۔۔اسموگ کو ہٹائے جائیں

1936

پاکستان میں 2010 ءسے ماحولیاتی مسائل سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں جن کا نتیجہ سیلابوں، پانی کی قلت اور بالخصوص ا سموگ کی شکل میں نکل رہا ہے۔ماحولیاتی مسائل کے چار بڑے اسباب ہیںجن میں دو غیر طبعی اور دو طبعی ہیں۔ طبعی اسباب میں عوامی سطح پر ماحولیاتی شعور کا نہ ہونا اور حکومتی سطح پر ماحولیاتی تحفظ کو عملی طور پر ترجیح نہ دینا شامل ہیں۔ طبعی عوامل میں جنگلات کا خاتمہ اور صنعت کاری و انفراسٹریکچر کی تعمیرات ہیں۔ پاکستان کے کل رقبے کا صرف 3.77 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں کاغذی کاروائیوں سے ہٹ کر عملی طور پر شجرکاری کی نہ تو کوئی ترجیحی حکمت عملی ہے اور نہ ہی کوئی منظم طریقہ کار ہے حتیٰ کہ پہلے سے لگے درخت بھی کٹاﺅ کی زد میں ہیں۔ پاکستان میں درختوں کے کٹاﺅ کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہ عمل ہر سطح پر جاری ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں لکڑی کا بطورِ ایندھن گھریلو استعمال بھی درختوں کے کٹائی اور جنگلات کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے نیز یہ کہ گھروں کی تعمیر میں درخت لگانے کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا جاتا اور پہلے سے موجود درختوں کو بھی اکھیڑ دیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں جنگلاتی زمینوں میں انسانی آبادکاری، جنگلاتی زمینوں کی درختوں کے کٹاﺅ سے زرعی اراضی میں تبدیلی، جنگلاتی زمینوں میں ذرائع نقل و حمل کی تعمیر، گرین بیلٹوں پر لگے درختوں کا کٹاﺅ، جنگلاتی لکڑی کا تجارتی استعمال، بچے کھچے درختوں کی دیکھ بھال کا بندوبست نہ ہونے اور صنعتی فضلے سمیت کوڑا کرکٹ و سیوریج کے پانی کوجنگلاتی علاقوں میں پھینکے جانے کے عوامل کی وجہ سے جنگلات کا خاتمہ اور درختوں کا کٹاﺅ تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں جوں جوں جنگلات کے خاتمے اور درختوں کی کمی میں تیزی آرہی ہے توں توں ماحولیاتی مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیںجن میں شہری علاقوں میں سموگ سمیت بارشوں کی کمی، زیرزمین پانی کی سطح کا نیچے چلے جانا، سیلابوں سے زمینی کٹاﺅکا بڑھنا، درجہ حرارت میں اضافہ ہونا، فضا کا مضرِ صحت ہونا وغیرہ شامل ہیں اور جوکہ خشک سالی اور زرعی پیداوار میں قحط کا سبب بھی بن سکتے ہیں جس کی ایک مثال لاہور شہر ہے۔
لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ یہاں کی شاہراہیں دونوں اطراف سے درختوں سے گھری ہوتی تھیں۔ یہاں کے درجہ حرارت میں گرمی کی شدت کے باوجود بھی درختوں کی بدولت ٹھنڈی ہواﺅں کے جھونکے محسوس کئے جاتے تھے۔ گنجان آبادصنعتی شہر ہونے کے باوجود بھی درختوں کی بدولت لاہور شہر میں سموگ دیکھنے کو نہیں ملتی تھی لیکن 2010ءسے بالعموم اور گزشتہ تین برسوں سے بالخصوص صرف لاہور شہر میں ڈھائی ہزار سے زائد درختوں کی کٹائی سے لاہور شہر کی فضا پر صنعتوں سے خارج ہونے والی دھاتی دھول، زہریلی گیسیں، کالا دھواں اور تعمیراتی گردوغبار غالب آگیا ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور کی فضا دنیا کی مضرِ صحت ترین فضاﺅں والے شہروں کی فہرست میںبالائی درجوں پر آگئی ہے۔ جوکچھ لاہور میں ہوا وہی کچھ بقیہ پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔ اسلام آباد میں جنگلاتی زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں بدل دینے اور شاہراہوں کی تعمیر میں درختوں کی کٹائی سے اسلام آباد کی فضا بھی سموگ سے آلودہ ہوگئی ہے۔ کراچی میں بڑھتی آبادی کی ضروریات کے تحت شجرکاری نہ کیئے جانے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ شمالی علاقوں اور بلند پہاڑی مقامات کی فطری فضا بھی درختوں کے کٹاﺅ سے متاثر ہوئی ہے۔
اگرچہ بارشوں کے ذریعے سموگ کے ذرات ہوا میں تحلیل یا زمین میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے وہ اس لیئے کہ بارشوں کا سلسلہ رُکنے سے سموگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کا امکان موجود رہ سکتا ہے۔ لہٰذا سموگ جیسے مسائل کا حل جنگلات کا بچاﺅ، وسیع پیمانے پر شہری علاقوں میں شجری کاری، صنعتوں میں ماحولیاتی بچاﺅ کے انتظامات کی تنصیب اور دھواں چھوڑنے والی ٹرانسپورٹ کا ترک کرنا، کوڑے و فضلے کو جلانے سے احتراز کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
بلاشبہ ترقی کے لیئے صنعت کاری اورانفراسٹریکچر کی تعمیرات ضروری ہیں اور انسانوں کی سہولیات کا بندوبست بھی کیا جانا ضروری ہے لیکن انسانوں کی سہولیات سے زیادہ ترجیح طلب ہر جاندار کی بنیادی ضروریات ہیں جن میں صاف پانی، غیرآلودہ فضا، قدرتی طریقہ کار سے اگنے والی خوراک وغیرہ شامل ہیں جو یہ تقاضا کرتی ہیں کہ صنعت کاری اور انفراسٹریکچر کی تعمیرات ماحولیات کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیں۔ علاوہ ازیں ماحولیاتی عدم تحفظ کے صرف انسانی صحت پر ہی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ اِ س سے صنعت کاری اور انفراسٹرکچر سے متعلقہ عوامل میں بھی رخنہ اندازہ ہوتی ہے مثلاً ذرائع نقل و حمل سموگ کی وجہ سے سفر نہیں کرتے، سموگ میں شامل دھاتی دھول سے بجلی کی سپلائی متاثر ہوتی ہے، درختوں کی جگہ بننے والے تعمیراتی منصوبے مسائل کا حل بننے کی بجائے ازخود مسئلہ بن جاتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ انسانی صحت اور زمینی زرخیزی کی بنیادی ضرورت ہے لہٰذامیٹروبس اور اورینج ٹرین سمیت پرپپل ٹرین جیسے نمائشی منصوبوں کی تعمیر اگر ناگزیر ہے تو ا±سے ضرور مکمل کیا جائے لیکن ماحولیات کی قیمت پر نہیں کیونکہ ماحولیات خالق کائنات کی بنائی گئی حدود ہیں اور ماحولیاتی حدود سے کھلواڑ کا نتیجہ بنی نوع انساں کو سیلابوں، زلزلوں، طوفانوں، خشک سالی، قحط، شدید گرمی اور مضرصحت فضا کی صورت میں ملتا ہے۔

مصنف کی مزید تحاریریں

  25 جولائی کو عام انتخابات 2018ء کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ امیدواروں کے نامزدگی فارمز وصول کیئے جارہے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کا چناؤ مکمل ہو...

  جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور سویت یونین دو بڑی طاقتیں بن کر ابھری تھیں۔ امریکہ نے سوشلزم کے پھیلاﺅ کا سدباب کرنے کے لیئے ”ٹرومین ڈاکٹرائن...

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کی طرزِ سیاست میں نااہلی کے بعد جو پہلی تبدیلی آئی وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے جمہوریت کے تسلسل، سول سپرمیسی، پالی...

پاکستان کے کل رقبے کا صرف 3.77 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں کاغذی کاروائیوں سے ہٹ کر عملی طور پر شجرکاری کی نہ تو کوئی ترجیحی حکمت عملی ہے اور نہ ...

آپ کی راۓ