25 جولائی کو عام انتخابات 2018ء کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ امیدواروں کے نامزدگی فارمز وصول کیئے جارہے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کا چناؤ مکمل ہوچکا ہے۔ حلقہ بندیوں کے خلاف عذرداریوں کو بھی خارج کردیا گیاہے۔بظاہر اب کوئی خدشہ نہیں رہا ہے کہ انتخابات ملتوی ہوں گے۔ ایسی صورت میں کہ جب الیکشن کے بروقت اور یقینی انعقاد میں کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا ‘… کسی پارٹی کا الیکشن میں التواء کی باتیں کرنا محض اپنی سابقہ کارکردگی چھپانے کا اور اپنے پروگرام کو پیش کرنے میں معذوری کا مظہر ہے۔
الیکشن 2018 ء شفاف ہوں گے یا غیرشفاف؟ منظم دھاندلی ہوگی یا بے ضابطگیاں ہوں گی؟ مجموعی طور پر انتخابی نتائج تبدیل کیئے جائیں گے یا مقامی سطح پر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوا جائے گا، دھاندلی پولنگ ڈے پر ہونے کا امکان ہے یا ابھی سے پری پول دھاندلی کی کوششیں کی جارہی ہیں، سیاسی پارٹیاں انتخابی نتائج تسلیم کریں گی یا ایک دوسرے پر مینڈیٹ چورانے کا الزام لگائیں گی؟ یہ سب وہ نکات ہیں جو جمہوریت، انتخابات اور شفاف سیاسی عمل کے حوالے سے سیاستدانوں کی سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ 5 سال میں انتخابی اصلاحات کے لیئے کیا کیا؟اور یہ کہ انتخابات میں دھاندلی کی صورت میں وہ ایک دوسرے کو دوشی ٹھہرائیں گے یا اپنی اجتماعی غلطی تسلیم کریں گے؟
الیکشن 2018 ء میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی کوئی نظریاتی دوڑ نہیں ہے، ایک دوسرے سے منفرد پروگرام نہیں ہے۔ بلکہ تمام پارٹیوں کے منشور اور پروگرامز لفاظی میں تو فرق رکھتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کا چربہ ہیں۔ حتیٰ کہ سیاسی پارٹیوں کے اکثریتی امیدواران کی شناخت بھی کسی ایک جماعت سے وابستگی کی بجائے ہوا کے رخ اڑنے اور چڑھتے سورج کا پجاری ہونے کا مظہر ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا زور وفادار نظریاتی کارکنان کی بجائے موقع پرست الیکٹ ایبلز ہیں جو پارٹیوں میں جاتے بھی موقع پرستی میں ہیں اور پارٹیاں انہیں لیتی بھی موقع پرستی میں ہیں۔ ایک پارٹی لاہور میں سرخ رنگ کی میٹرو اور اورنج رنگ کی ٹرین کیش کروارہی ہے تو دوسری پارٹی پشاورمیں پیلے رنگ کی میٹرو بنانے کا وعدہ کررہی ہے۔ اسی طرح ایک پارٹی کرپشن کے خلاف مہم کامیاب بنانے کی بات کررہی تو دوسری طرف اُسی پارٹی پر کرپٹ عناصر کے تحفظ کے لیئے احتساب عمل کو غیرمؤثر کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اس طرح ایک اور قدر بھی تمام پارٹیوں میں مشترک ہے وہ یہ کہ حریفوں کی پگڑیاں اچھالنا اور ایک دوسرے کی اخلاقی گروٹ بے نقاب کرنا۔ اس ضمن میں ن لیگ کا ریحام خان کی کتاب پر جگت بازی کرنا اور پی ٹی آئی کا عائشہ احد کی پشت پناہی کرنا اسی رویے کی مثالیں ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ یہ کہ گزشتہ دو انتخابات کی طرح کیا اب کی بار عوام لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر کسی پارٹی کو ووٹ دے گی یا نہیں؟ تو اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے حمام میں تینوں بڑی پارٹیاں ننگی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاق میں برسراقتدار ن لیگ لوڈشیڈنگ ختم نہ کرسکی اور صوبوں میں برسراقتدار پی پی پی اور پی ٹی آئی وعدوں بیانوں کے باوجود صوبائی سطح پر بجلی کی پیداوار کا خواطر خواہ انتظام نہ کرسکیں۔جبکہ انتخابی منشور میں تینوں بڑی پارٹیاں درجنوں نکات کے سبز باغ تو دیکھاتی ہیں لیکن یہ بتانے سے معذور ہیں کہ وہ کس طرح اور کیسے اپنے دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے؟
مختصراً کہ عام انتخابات 2018 ء نہ تو آمرانہ ادوار کے انتخابات کی طرح نظریاتی بنیادوں پر ہوں گے، نہ ہی گزشتہ دو انتخابات کی طرح لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعووں پر یقین کیا جائے گا۔ بلکہ عام انتخابات 2018 ء حقیقت پسندی کا مظہر ہوں گے جس میں ووٹرز اپنے حالات و واقعات اور مفادات و ترجیحات کے مطابق ووٹ دیں گے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے رویے نے ووٹر کو قومی سطح پر ووٹ دینے کی بجائے ذاتی مفاد پر ووٹ دینے کے سیاق و سباق میں دھکیلا جا رہا ہے۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور سویت یونین دو بڑی طاقتیں بن کر ابھری تھیں۔ امریکہ نے سوشلزم کے پھیلاﺅ کا سدباب کرنے کے لیئے ”ٹرومین ڈاکٹرائن...