نظریاتی نواز شریف سے نظریہ نواز شریف تک

1792

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کی طرزِ سیاست میں نااہلی کے بعد جو پہلی تبدیلی آئی وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے جمہوریت کے تسلسل، سول سپرمیسی، پالیمان کی بالادستی اور بالخصوص سابق وزرائے اعظم کی متنازع بے دخلی کے موضوعات کو نظریاتی کارڈ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیاہے۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاست میں آمد سابق منتخب اور مصلوب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی اثرات کے خلاف جنرل ضیاء الحق کے پیرو کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی جانب سے معزول کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے خلاف مسلم لیگ کی اندرونی اور ملکی سیاست میں بھی پاور پالیٹکس کے کارڈ کھیلتے رہے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کی بے دخلی میں بھی نواز شریف ہی پارلیمان کے اندر اور پارلیمان سے باہر معرکہ بازی کرتے رہے تھے۔ اسی طرح اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل سے لے کر میموگیٹ سکینڈل کی عدالتی سماعتوں میں کالا کوٹ پہننے تک نواز شریف ہی اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بنے رہے تھے اور منتخب حکومتوں کو ہی زِچ کرتے رہے تھے۔ نواز شریف کے ماضی سے متعلق مذکورہ بالا عوامل کے ہوتے ہوئے اُن کا نظریاتی ہونا نیک شگون تھا اور امید تھی کہ وہ اب ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور پاور پالیٹکس کی بجائے نظریاتی سیاست کریں گے لیکن انیس نومبرکو ایبٹ آباد کے جلسہ میں انہوں نے ’’نواز شریف ایک نظریہ بن گیا ہے‘‘ کا دعویٰ کرکے اپنے نظریاتی ہونے کے دعوے سے انحراف کردیا ہے۔ دراصل نواز شریف نے اپنی ذات کو نظریہ قرار دے کر دوبارہ سے آمرانہ ذہنیت کا مظاہرہ کردیا ہے۔ مثلاً کہ آمر بھی اپنی ذات ہی کو حکومت اور ریاست کا مجتمع سمجھتا ہے اور میاں نواز شریف اپنی جماعت کے برسراقتدار ہوتے ہوئے بھی اپنی معزولی کو ریاست اور حکومت کے خلاف سازش کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ آمریت خاندانی بادشاہت کی شکل میں ہو، یک جماعتی نظام کی شکل میں ہو، یا آٹوکریسی کی شکل میں ہو وہ خود کو صرف قانون سے بالاتر ہی نہیں سمجھتی بلکہ اپنی ذات ہی کو قانون کا ماخذ اور پیکر خیال کرتی ہے یہی معاملہ میاں نواز شریف کا ہے چونکہ آج میاں نواز شریف کا گھرانہ کٹہرے میں کھڑا ہے اس لیئے وہ عدلیہ کے دائرہ اختیار کی بجائے اپنے خاندان کے مفادات کو ہی انصاف خیال کرتے ہیں۔ نظریات انسانوں کی جانب سے معاملات کی انجام دہی کے ارتقائی عمل کے نتیجے میں معاملات کو مثالی بننے کے لیئے فکر،شعوری، مشقی اور نصابی ماخذات سے سامنے آنے والی اقدار ہوتی ہیں لیکن میاں محمد نواز شریف کا اپنی ذات کو نظریہ کہنا نظریہ نہیں بلکہ شخصیت پرستی ہے اور شخصیت پرستی کو نظریہ کہہ کر میاں نواز شریف نہ صرف یہ کہ نظریات کی توہین کررہے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی ذہنی غلام بنارہے ہیں۔

مصنف کی مزید تحاریریں

  25 جولائی کو عام انتخابات 2018ء کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ امیدواروں کے نامزدگی فارمز وصول کیئے جارہے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کا چناؤ مکمل ہو...

  جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور سویت یونین دو بڑی طاقتیں بن کر ابھری تھیں۔ امریکہ نے سوشلزم کے پھیلاﺅ کا سدباب کرنے کے لیئے ”ٹرومین ڈاکٹرائن...

پاکستان میں 2010 ءسے ماحولیاتی مسائل سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں جن کا نتیجہ سیلابوں، پانی کی قلت اور بالخصوص ا سموگ کی شکل میں نکل رہا ہے۔ماحولیاتی مسائ...

پاکستان کے کل رقبے کا صرف 3.77 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں کاغذی کاروائیوں سے ہٹ کر عملی طور پر شجرکاری کی نہ تو کوئی ترجیحی حکمت عملی ہے اور نہ ...

آپ کی راۓ