پاکستان میں مارشل لاکیوں لگتا ہے؟

1894

 

جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور سویت یونین دو بڑی طاقتیں بن کر ابھری تھیں۔ امریکہ نے سوشلزم کے پھیلاﺅ کا سدباب کرنے کے لیئے ”ٹرومین ڈاکٹرائن“ جاری کی تھی۔ ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت سوویت یونین کا جغرافیائی گھیراﺅ اور پسماندہ ممالک کو اپنے حلقہ اثر میں شامل کیا جانا مقصود تھا۔مشرقی یورپ سوویت یونین کے حلقہ اثر میں تھا اور مغربی یورپ امریکہ کےحلقہ اثر میں تھا۔ مشرقی یورپ سے مغربی یورپ کی طرف سوشلزم کے نفوذ کو روکنے کے لیئے امریکہ نے ترکی اور یونان کی سرپرستی کی تھی۔جنوبی ایشیاءمیں ٹرومین ڈاکٹرائن پر عملدرآمد سابق امریکی صدر ڈیووائٹ ڈی آئزن ہاور کی انتظامیہ میں کیاجانا تھا۔ چونکہ جنوبی ایشیاءمیں امریکی پالیسی پر عملدرآمد کروانے کے لیئے پاکستان کا امریکی حلقہ اثر میں ہونا ضروری تھا لہٰذا پاکستان میں اُس وقت امریکہ نواز ملک غلام محمد، اسکندرمرزا اور جنرل ایوب خان پر مشتمل سول ملٹری نوکرشاہی تکون کی شکل میں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ بڑھنے لگا۔ 17 اکتوبر 1951ءمیں ملک غلام محمد کے گورجنرل بننے سے پاکستان امریکی اثرورسوخ میں آگیا تھا۔ ملک غلام محمد نے اپنے دور میں خواجہ ناظم ا لدین کو 1953 ءمیں معزول کیا،اسمبلی کو 1954 میں برطرف کردیا۔ ملک غلام محمد کی بوجہ علالت علاج سے رخصتی کے بعد 23 مارچ 1956ءکو اسکندرمرزا گورنر جنرل بنے جنہوں نے بعدازاں 1956ءکے آئین کو منسوخ کردیا تھا۔ آخرکار 27 اکتوبر 1958 ءکوجنرل ایوب خان کے اقتدار پر قبضے سے پاکستان میں امریکی اثرورسوخ اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔ پاکستان میں پہلے مارشل لا کے وقت بھی سیاسی جماعتوں میں جوڑتوڑ عروج پرتھا حتیٰ کہ 1956ءکے صدارتی انتخابات میں مولانا بھاشانی اور فاطمہ جناح علیحدگی سے ایوب خان نے فائدہ اٹھایا تھا۔ گویا کہ سیاستدانوں کی اپنی اپنی جمہوریت نے ہی جمہوریت کا بستر گول کیا تھا۔

امریکہ اور سویت یونین مشرقی پاکستان کو ایک آزاد ریاست دیکھنا چاہتے تھے تاکہ ا ±سے چین کے خلاف بحرہ ہند میں ضرورت پڑنے پرممکنہ آپشن کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔لہٰذا اس مقصد کی تکمیل کے لیئے جنرل یحیٰی خان کے مارشل لا کی سرپرستی کی گئی تھی جو کہ پاکستان کا دوسرا مارشل لا تھا۔ اس مارشل لا کو اگرچہ امریکہ نے سپورٹ کیا تھا لیکن اس سے امریکہ اور سویت یونین نے بیک وقت فائدہ اٹھایا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کی جانب سے مشرقی پاکستان کو آزاد ریاست کی حیثیت سے آزادی دینے کی امریکہ کو ضمانت دی گئی تھی۔ سویت یونین نے مشرقی بنگال کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ یوں پاکستان میں دوسرے مارشل لا کا نتیجہ بحرہ ہند میں ایک نئی ریاست کے قیام کی صورت میں پورا ہواتھا۔

پاکستان کا تیسرا مارشل لا جنرل ضیاءالحق کی صورت میں آیا تھا جو کہ خالصاً امریکہ نے سپورٹ کیا تھا۔ اس مارشل لا کو سپورٹ کرنے کے چار بڑے مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو رول بیک کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کی اشتراکی معیشت کو دوبارہ آزادمنڈی کی معیشت میں بدلا جائے۔ تیسرا یہ کہ ویتنام کا بدلہ لینے کے لیئے افغانستان میں سویت ریڈآرمی کو واپس جانے پر مجبور کیا جائے اور چوتھا یہ کہ مسلم ممالک کے پاکستان کی سیادت میں اتحاد کے عمل کو پاکستان ہی کے ذریعے سبوتاژ کیا جائے۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے یہ چاروں مقاصد پورے کرلیئے گئے تھے۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے وقت سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کی بجائے مارشل کے نفاذ کی حمایت کررہی تھیں اور انتخاب سے پہلے احتساب کے مطالبے کررہی تھیں۔

1991ءمیں سوویت یونین کو ٹوٹنے پر جب عالمی سیاست کا منظرنامہ امریکی بالادستی کے یک قطبی سناریو میں بدل گیا۔ اُس وقت کے امریکی صدر جارج ایچ ڈیبلیو بش کی ایڈمنسٹریشن نے ”نیوورلڈآرڈر“ جاری کیا تھا جس کے تحت سوویت یونین کے بعد اسلامی بنیاد پرستوں کا خاتمہ کیا جانا تھا۔ یوں امریکہ نے بیرونی دشمن کی تلاش میں اسلامسٹوں کو اپنا ہدف بنالیا اور تب افغانستان اسلام پسندوں کا گڑھ تھا کیونکہ وہاں افغان جہاد میں حصہ لینے والے جہادیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ افغانستان میں جہادیوں کی باہمی خانہ جنگی کا خاتمہ بھی جب طالبان جیسے جہادیوں سے ہوا تو امریکہ نے افغانستان سے طالبان رجیم ختم کرنے کی ٹھان لی تھی۔ لہٰذا پاکستان کے چوتھے مارشل لا کا محرک امریکی میں ”نیوکونز“ پر مشتمل بش ایڈمنسٹریشن کے توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کی تکمیل تھی جو کہ وارآن ٹیرر کے عنوان سے افغانستان پر یلغار کی صورت میں پوری کی گئی تھی اور اس کا اصل مقصد جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے تزویراتی سنگم اور قدرتی وسائل سے مالا مال وسطیٰ ایشیا میں قدم جمانا تھا اور پرویز مشرف کے مارشل لا میں یہ مقصد پورا کرلیا گیا تھا۔نوازلیگ کے دوسرے دورِ حکومت میں پی پی پی سمیت اپوزیشن کی جماعتوں نے مارشل لا کی بھرپور حمایت کی تھی۔
آجکل کے حالات بھی بحرانی صورت اختیار کر چکے ہیں ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی جمہوریت کا نعرہ لگا رہی ہے پاکستان اندرونی طور پر اور بیرونی دوںوں جانب سے پھر دشمنوں میں گھر چکا ہے ۔۔سی پیک واقعی گیم چینجر بن چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی کی معاشی حالت کا تو پتہ نہیں بدلے نہ بدلے لیکن ملکی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے۔اور حالات پھر نئے ورلڈ آرڈر کے آنے کے اشارے دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔

مصنف کی مزید تحاریریں

  25 جولائی کو عام انتخابات 2018ء کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ امیدواروں کے نامزدگی فارمز وصول کیئے جارہے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کا چناؤ مکمل ہو...

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کی طرزِ سیاست میں نااہلی کے بعد جو پہلی تبدیلی آئی وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے جمہوریت کے تسلسل، سول سپرمیسی، پالی...

پاکستان میں 2010 ءسے ماحولیاتی مسائل سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں جن کا نتیجہ سیلابوں، پانی کی قلت اور بالخصوص ا سموگ کی شکل میں نکل رہا ہے۔ماحولیاتی مسائ...

پاکستان کے کل رقبے کا صرف 3.77 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں کاغذی کاروائیوں سے ہٹ کر عملی طور پر شجرکاری کی نہ تو کوئی ترجیحی حکمت عملی ہے اور نہ ...

آپ کی راۓ