
لیگ سپنر عمران طاہر پاکستان کی طرف سے نہ کھیلنے کو تقدیر کا فیصلہ سمجھتے ہیں لیکن جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلنے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
عمران طاہر ورلڈ الیون کی طرف سے کھیلنے کے لیے لاہور آئے ہیں۔
یہ وہی شہر ہے جہاں وہ پیدا ہوئے اور اپنی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی یہاں تک کہ پاکستان انڈر 19 اور پاکستان اے کی بھی نمائندگی کی لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم تک نہ پہنچ پائے جس کے بعد انھوں نے پہلے کاؤنٹی کرکٹ اور پھر جنوبی افریقہ کی کرکٹ میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور جنوبی افریقہ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے میں کامیاب ہوگئے۔
’آج میں جہاں ہوں اس پر مجھے فخر اور خوشی ہے ۔ جنوبی افریقہ نے مجھے ٹیسٹ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھلا کر میرے خوابوں کی تعبیر دی۔ میں پاکستان میں پیدا ہوا یہاں پلا بڑھا اور یہیں کرکٹ شروع کی میں پاکستان کی طرف سے کھیلنا چاہتا تھا لیکن یہ میری قسمت میں نہیں تھا۔ میں اکیلا کرکٹر نہیں ہوں بلکہ ایسے کئی کرکٹرز ہیں جو پیدا کہیں ہوئے اور کرکٹ کہیں اور کھیلی۔‘
عمران طاہر کی ایک اور خواہش اپنے خاندان کے سامنے قذافی سٹیڈیم میں کھیلنے کی تھی جو پوری ہورہی ہے۔
’میرے والدین اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن بہن بھائی ہیں جن کے سامنے میں تماشائیوں سے بھرے ہوئے قذافی سٹیڈیم میں کھیلنے کی خواہش رکھتا تھا جو اس سیریز میں پوری ہوسکے گی۔‘
عمران طاہر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل کر وہ ایک سخت جان کھلاڑی کے طور پر تیار ہوئے۔
’میں نے جس زمانے میں کرکٹ کھیلی اس وقت پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں بہت سخت مقابلہ تھا۔ مجھے پاکستانی ٹیم میں آنے کا موقع نہ مل سکا لیکن میں نے اپنی فرسٹ کلاس کرکٹ سے بھرپور لطف اٹھایا اور اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا اور یہ تجربہ مجھے آنے والے دنوں میں کام آیا۔‘
عمران طاہر کو اس بات کی بہت خوشی ہے کہ وہ ایک اہم مقصد کے تحت پاکستان آئے ہیں۔
’میں غالباً پہلا کھلاڑی تھا جس نے اس دورے پر آنے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی کرکٹرز کو بھی اس دورے کے بارے میں مثبت رائے دی۔ میری خواہش ہے کہ ہم تمام کرکٹرز کی کوششیں کامیاب ثابت ہوں اور پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ دوبارہ شروع ہو۔‘

عمران طاہر نے قذافی سٹیڈیم کی وکٹ کے بارے میں جو کچھ معلوم کیا ہے وہ ان کے لیے حوصلہ افزا نہیں۔
’میں قذافی اسٹیڈیم کے بارے میں کافی جانتا ہوں لیکن وکٹ کے بارے میں میں نے جو معلومات حاصل کی ہیں وہ میرے مطلب کی نہیں کیونکہ یہ بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ بتائی گئی ہے لیکن پھر بھی میں ایک چیلنج سمجھ کر کھیلوں گا کیونکہ میں ہر میچ سے قبل اپنی تیاری ضرور کرتا ہوں اور بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ کھیلتا ہوں اگر یہ جذبہ نہیں ہے تو پھر مجھے ریٹائر ہوجاناچاہیے۔‘
عمران طاہر پاکستان کی موجودہ ٹیم کی صلاحیتوں کے بہت معترف ہیں۔
’پاکستان ایک اچھی ٹیم ہے جس میں نوجوان کھلاڑی بھی شامل ہیں جنھوں نے چیمپیئنز ٹرافی میں خود کو ثابت کیا ہے۔یقیناً ان سے مقابلہ اچھا رہے گا۔‘
عمران طاہر پاکستانی لیگ سپنر شاداب خان سے کیے گئے موازنے کو درست نہیں سمجھتے۔
’اصل مقابلہ میچ میں شروع ہوگا۔ شاداب بہت ہی باصلاحیت بولر ہیں اور میں ان کے روشن مستقبل کے لیے نیک تمنائیں رکھتا ہوں۔ ہر کسی کے پاس مختلف نوعیت کا ٹیلنٹ ہوتا ہے۔ میں اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں کھیل کا نقشہ بدل سکتا ہوں۔ یقیناً یہی سوچ شاداب خان کی بھی ہوگی۔‘