
اکستان میں ‘ڈان لیکس’ کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ حکومت کے سامنے پیش کیے جانے کے بعد سنیچر کو اس وقت ایک غیرمعمولی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جب ایک طرف فوج نے وزیر اعظم کے ایک نوٹیفیکشن کو مسترد کر دیا تو دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اصل نوٹیفیکیشن تو ابھی جاری ہوا ہی نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت جو پاناما پیپرز کے مقدمے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد پہلے ہی شدید دباؤ اور سیاسی بحران کا شکار نظر آتی ہے اس کے لیے سنیچر کو وزیر اعظم کی طرف سے ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن سے سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘
’حکومت نے اپنے لیے ایک اور گڑھا کھود لیا ہے‘
’حکومتیں الٹائیں، لیکن ایسے بیانات نہیں دیے‘
وزیر اعظم کےنوٹیفیکیشن، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا ٹویٹر پر جاری ہونے والا بیان اور پھر وزیر داخلہ کی وضاحتی پریس کانفرنس نے نہ صرف فوج اور حکومت کے درمیان ڈان لیکس کے معاملے پر شدید اختلافات کو طشت از بام کر دیا ہے بلکہ اس تاثر کو بھی تقویت بخشی کہ ڈان لیکس کے پیچھے اصل عناصر وہ نہیں جنہیں حکومت بلی چڑھا رہی ہے۔
اس ساری صورت حال میں یہ بات اور واضح نظر آتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ملکی سکیورٹی سے متعلق انتہائی اہم اجلاس کی کارروائی کی خبر ڈان اخبار کے رپورٹ سرل المائڈہ کو لیک کرنے والے عناصر اتنے اہم ہیں جن کو بچانے کے لیے حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
موجودہ صورت حال جس میں حکومت پاناما مقدمے کے فیصلے کے بعد شدید دباؤ میں ہے اور وزیر اعظم سے مستفعی ہونے کے مطالبوں کا شور شدت اختیار کرتا جا رہا ہے حکومت ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پر پوری طرح عملدرآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔