اختلاف ہو گا۔ اختلاف نہ ہونے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم زندہ لاشیں ہیں اور مردہ معاشرے کے باسی۔ اختلاف کرنا بھی ایک فن ہے اور شاید ہم بحیثیت قوم اس کی الف ب سے بھی ناواقف۔ جب بھی کوئی رائے قائم کی جائے گی اس کی کوئی بنیاد ہو گی۔ آپ کو اُس پر تبصرہ کرنے، اس کی غلطی دلیل سے واضح کرنے، اپنی رائے اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے پورے زور شور سے ثبوت کے ساتھ پیش کرنے کا پورا حق ہے اور یہ کام کرنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔
جب کوئی دانش ور یا صحافی اپنی کوئی رائے پیش کرتا ہے تو اس کا ایک نتیجہ تو لازمی نکلتا ہے کہ وہ رائے کسی ایک کو فائدہ پہنچاتے نظر آئے گی تو دوسرے کے خلاف، یا ایک کی رائے اس سے متصادم ہو گی تو دوسرے کی رائے کے قریب۔ قوم کیا کرے یا ایک عام آدمی کیا کرے؟ وہ اپنے پاس موجود حقائق اور دلائل کی بنیاد پر اسے تسلیم یا رد کر دے۔ یا اس پر اپنی رائے کا اظہار کر دے کہ مجھے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔
مگر پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم من حیث القوم اختلاف رائے کو جرم سمجھنے اور کرنے والے کو گھر تک پہنچانے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارے قائدین نے اس روایت کی بنیاد ڈالی۔ کارکنان نے کسی کار خیر کی طرح انتہا کو پہنچا دیا۔ہم الزام لگاتے ہیں اور کسی بھی شہادت کی زحمت کے بغیر لگاتے ہیں۔ الزام رکھنے کو اپنا پیدائشی اور دشنام طرازی کو بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ اس حق کی ادائیگی میں اس جانفشانی سے پیش قدمی کرتے ہیں کہ چادر اور چار دیواری میں اکیاون چھید کر کے گزرتے ہیں۔
ہم اپنی روش پر قائم ہیں اور اس کے نتائج سامنے کھڑے منہ چڑھا رہے ہیں، مگر مجال ہے جو ہمیں احساس بھی ہو۔ ہماری یہ تربیت صرف سیاست میں ہی نہیں، سماجی، معاشرتی، دینی غرض یہ کہ ہر معاملے میں نظر آنے لگتی ہے۔
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہمارے ہاں پری میچور سوشل میڈیا نے ہمارے اس قومی رویے کو مزید برہنہ کر دیا ہے۔ اور اس میں ان پڑھ طبقے سے زیادہ بُرا کردار اس ملک کے پڑھے لکھے اور باوسائل طبقے نے ادا کیا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں سلیم خان صافی کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہم کبھی اپنے رویے بلکہ یوں کہیے کہ ردِعمل کے رویے کو درست کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ انسان صرف اپنے عمل سے ہی نہیں بلکہ ردِعمل سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ جس راستے کو ہم نے اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے یہ آج ایک کے ساتھ ہو گا، دوسرا تالیاں پیٹے گا اور کل دوسرے کے ساتھ تو پہلا ڈھول پیٹے گا۔
سلیم سے میری دوستی، بلکہ بھائی بندی دو اڑھائی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ وہ میرے اور میں اس کے گھر کے فرد ہی کی طرح ہیں۔ دونوں کے گھروں میں ایک دوسرے سے کوئی پردہ نہیں۔ میں نے سلیم کو کچھ نہیں سے بہت کچھ بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ لہٰذا میں اس کو نہ صرف جانتا ہوں، بلکہ اس کو بیت گیا ہوں۔
ہم ایک ہیرو مار قوم ہیں۔ زندہ مجرم اور مردہ ہمارے ہاں ہیرو ہوا کرتے ہیں۔ ہم جن چیزوں کو بنیاد بنا کر اصول وضع کرتے ہیں انہی سے خود کنارہ کش ہوتے لمحہ بھر کا وقت نہیں لگاتے۔
سلیم نے اپنا بچپن چنوں کی ریڑھی سے شروع کیا۔ باپ بچپن ہی میں وفات پا گیا تھا، بلکل ناخواندہ ماں نے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا۔ اور مردان کے نواحی قصبے سے اٹھا کر اس قوم کے ایک یتیم، بے سہارا بچے کو غربت کی گہرائیوں سے پشتون بھائیوں کے اکا دکا ان لوگوں میں سے بنا دیا جن کو آج یہ قوم قومی اور عالمی سطح کے صحافی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ کیسی عظیم ہو گی وہ ماں، مگر ہم نے اسے بھی گالیاں دیں۔ یہی اگر مغرب کے کسی کامیاب آدمی کی ماں ہوتی تو مثالیں دیتے نہ تھکتے۔ جب اس شخص نے جمعیت کے تحت جہاد کو ہی حق سمجھا تو دانش وروں کی طرح صرف سمجھا نہیں بلکہ میٹرک کے امتحان میں ٹاپ کرنے والے کے ہاں صف ماتم اس لیے بچھی رہی کہ صاحب جہاد کے لیے افغانستان تھے۔ ایف اے میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی۔ تو بتانا یہ مقصود تھا کہ صرف باتوں کے الاو دہکا کر ہی لوگوں کے کان گرم نہیں کیے بلکہ خود اپنے کہے کو کیے میں بدلنے میدان عمل میں موجود رہے۔
ڈاکٹر فاروق خان شہید اور میرے والد سے ملنے کے بعد جب اس کی سوچ میں جو کچھ تبدیلی آئی، وہ بھی صرف باتوں کی حد تک نہ رہی بلکہ اس کا عمل اس کی سوچ کا آئینہ دار رہا۔
صحافت کا آغاز مشرف صاحب کی آمریت میں کیا۔ اور ان کے پورے دور میں اس کا ہر ہر لکھا اور بولا ہوا لفظ اس کے آمریت کے خلاف مقدمے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاریخ کی گود بڑی سفاک واقع ہوئی ہے سب کچھ برہنہ کر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ ہم سب دوستوں کا اس سے یہ مذاق عام ہے کہ تم کبھی کسی حکمران اور حکمران پارٹی کے ساتھ بھی بنا کر رکھ لیا کرو۔ یہ بارہا دیکھا کہ جو کوئی بھی اقتدار میں ہو، سلیم کو اس کا ناقد اور اسے سلیم کا دشمن ہی پایا۔
حکومتیں چاہے مشرف، ق لیگ یا ایم ایم اے، اے این پی اور یا پھر زرداری، نواز شریف اور عمران خان کی ہوں سلیم نے کبھی حکمرانوں کے جبر کی پرواہ نہ کی۔
مجھے اور ہم سب دوستوں کو تو بلکہ اس سے یہ شکایت رہی کہ تم حکمرانوں پر ہاتھ بہت سخت رکھتے ہو۔ مگر چشمِ حیراں نے یہ بارہا دیکھا کہ جب وہی حکمران مسند سے نیچے آئے اور مشکلوں میں پھنس گئے تو سلیم اپنے ساتھ روا رکھی زیادتیاں بھول گیا۔
بیسیوں مواقع کا میں خود گواہ ہوں جب سیلم نے بہت کچھ ٹھکرا دیا مگر اپنا شملہ گرنے نہ دیا۔ ابھی جن صاحب کی وجہ سے ان پر تنقید بلکہ گالم گلوچ ہوئی یہ صاحب مطلب نوازشریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کے ناک میں اس شخص نے اقتدار کے دوران دم کیے رکھا۔
وہ معاملہ سی پیک کا ہو یا فاٹا کا۔ وزیرستان آپریشن ہو یا پختون جرگہ، اس شخص نے ایک محاذ قائم کیے رکھا اور اس کے دشمنوں نے بھی اس بات کو مانا کہ اس نے فاٹا کا ادغام اور سی پیک کے مغربی روٹ کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی۔ اس کو بھارتی ایجنٹ تک کہا گیا مگر وہ ڈٹا رہا۔ نوازشریف صاحب کے ایک وزیر نے چینیوں سے باقاعدہ یہ شکایت کی کہ سلیم کو سی پیک کو خراب کرنے کا معاملہ چند قوتوں کی طرف سے باقاعدہ سونپا گیا ہے۔
جس گھر میں آج بھی رہتا ہے وہ ایک کرائے کے گھر کا پورشن ہے۔ جو گاڑی وہ چلاتا ہے وہ اس کو “جیو” کی طرف سے ملی ہے۔ تمام خاندان جو اسی کی طرح نامساعد حالات کا شکار تھا اس کے تمام غموں کا مداوا کرنا بھی اسی کے سر ٹھہرا۔ گھر پر بیمار ماں جو اس کے لیے اس کی زندگی کا کل سرمایہ۔ اب خدا کے فضل سے اس کے جو حالات ہیں وہ اس کے لیے ایک اچھی مناسب زندگی گزارنے کو بہت کافی ہیں۔ حرام کی کوئی ضرورت ندارد۔ خدا سے ملے پر راضی اور خوش رہنے والا آدمی ہے۔
سوال یہ ہو سکتا ہے کہ میں نے پہلی مرتبہ اس طرح کے کسی معاملے پر قلم کیوں اٹھایا ہے۔ بات یوں ہے کہ ایک بھائی اور دوست کے لیے حق کی گواہی اس سے مبرا ہو کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا حشر بھی اس سے مختلف ہو گا یا نہیں ہو گا، مگر جب گواہی حق کی ہی ہو تو اس دشنام اور گالم گلوچ سے کیا گھبرانا؟ تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں گے۔
مگر بس آخری عرض یہ کہ ازراہ خدا اپنے اندر اختلاف کو برداشت کرنے اور سہنے کا حوصلہ پیدا کیجیے۔ اختلاف قوموں کی زندگیوں میں سانس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اختلاف کیجیے مگر دلیل سے، اپنے موقف کی مضبوطی کی ضمانت غصے کو نہیں بلکہ دلیل کو بنائیے۔ ہمیں اپنے سماجی، معاشرتی اور دینی معاملات میں جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے ہی اختلاف رائے کا طریقہ سیکھنا اور سہنے کا حوصلہ پیدا کرنا۔ یہ کام ہمارے حکمرانوں کو بھی کرنا ہو گا اور ہمیں بحشیتِ قوم بھی۔ ہمیں تو لوگوں کی چادر چار دیواری کا محافظ بننا تھا، ہم عزتیں اچھالنے والے کب بن گئے۔ ہمیں خدا کی بستی میں ہنسی کا سامان بننا تھا، ہم دشنام کے علم بردار کب سے بن گئے۔ یاد رکھیں کہ فرد سے کی نا انصافی اس خدا کے ہاں بھی اس وقت تک معاف نہ ہو گی جب تک خود فرد اس سے پیچھے نہ ہٹ جائے۔ ہماری تحزیب میں مائیں بہنیں سانجھی ہوا کرتی تھیں، ہم نے رشتوں کی بےتوقیری کب سے شروع کر دی۔
سلیم سے ہمیں بھی دس اختلاف روز ہوتے ہیں۔ گرما گرم بحث بھی ہوتی ہے، وہ اپنے تجزے بے کم و کاست بیان کرتا ہے اور ان پر ہمارے شدید ردِ عمل کو بھی برداشت کرتا ہے۔ اب بھی اس نے اپنا ایک تجزیہ مع ثبوت پیش کیا ہے۔ ان لوگوں کے حق میں پیش کیا ہے جو اپنے اقتدار کے دنوں میں اس کے شدید مخالف رہے ہیں۔ آپ اس کے تجزیے کو اور ثبوت کو ٹھیک نہیں سمجھتے، تو آپ ہزار بار اختلاف کیجیے، آپ کی حکومت ہے آپ ثبوت اکٹھے کیجیے اور قوم کے سامنے پیش کر دیجیے کہ تم ان ثبوتوں کی بنیاد پر غلط کہہ رہے ہو۔ مگر آپ نے کیا کیا! اس آدمی کو گالم گلوچ یہاں تک کہ اس کے گھر والوں اور بوڑھی بیمار ماں (ایک ایسی ماں جس نے انتہائی نا مساعد حالات میں آپ کو ایک پڑھا لکھا فرد فراہم کیا) اس کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ تو معاف کیجیے گا ہم سب شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں، یہ رسم چل نکلی تو کسی کا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا اور حاصل سوائے انتشار، بدتہذیبی اور اخلاق باختگی کے کچھ بھی نہ ہو گا۔