سندھ آئی جی پی۔۔ اصل مسئلہ اور اصل حقائق: عثمان گجر کی خصوصی تحریر

1059

مسئلہ آئی جی پی سندھ

مورخہ 9 فروری 2020 ایک اخبار کے اداریہ میں آئی جی پی سندھ کے مسئلے پر حقیقت سے ہٹ کر کہانی پیش کی گئی 

 اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آئینی طور پر صوبے کے امن و امان کا ذمہ دار صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے لیکن یہ کام IGP کی سربراہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے بہر حال مسائل کو وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر خوش اسلوبی سے حل کئے جانے چاہیے. لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگا کہ ماضی میں چیف ایگزیکٹو نے محکمہ پولیس کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے سال 2011 ء میں سپریم کورٹ ” بدامنی کیس” کے ذریعہ ازخود نوٹس کے یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے پرانے زمانے میں بادشاہ کے الفاظوں کو ہی قانون سمجھا جاتا تھا. ہمیں اس بات پر ناز ہونا چاہیے کہ یہ 21 ویں صدی ہے جہاں قانون کو قابلِ عمل سمجھا جاتا ہے ” قانون عوامی ضمیر ہے” کے حوالے سے تھامس ہوبس، پبلک انسٹی ٹیوشنز نے کہا (خاص طور پر امن و امان سے متعلق) کہ کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یا ذاتی و سیاسی فوائد کے حصول کے لئے کسی کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے. موجودہ حالات میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ سندھ کی موجودہ سیاسی قیادت کی خواہش ہے کہ موجودہ IGP اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کام کرے. مختصراً چیف منسٹر اور IGP کے درمیان موجودہ جھگڑا، صحیح اور غلط کا، اختیارات اور فرائض کا، حکمرانوں کے قانون اور قانون کی حکمرانی کا ہے.
چیف ایگزیکٹو چاہتے ہیں کہ ان کے من پسند افسران کو تعینات کیا جائے جو ان کی پارٹی کی حمایت میں ہوں جس سے ان کا کوئی بھی کام متاثر نہ ہو. ایسی صورتحال میں کیا صوبائی پولیس چیف کو ان مشکلات میں کام کرنا چاہیے یا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے؟ اور اگر وہ ایسا کرنےسے انکار کرتا ہے تو کیا موجودہ IGP سندھ ایسے سلوک کا مستحق ہے جیسا اس کے ساتھ کیا جارہا ہے؟ سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آپ کو ایک سبق سکھائیں گے. اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں چار سے پانچ IGP تبدیل کیے گئے ہیں جبکہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں ایک درجن سے زائد IGPs کو تبدیل کیا گیا ہے قانون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایک IGP کو ایک مقررہ مدت سے پہلے ” بغیر کسی ٹھوس وجوہات” کے بغیر نہیں ہٹایا جائے گا بدقسمتی سے IGP ڈاکٹر سید کلیم امام کے معاملے میں وفاقی حکومت کو کوئی ٹھوس وجوہات نہیں بھیجی گئیں لیکن بہت سے غیر پختہ اور نافہم فیصلوں کا سلسلہ جاری رہا. جس کا سینئر سیاستدانوں نے میڈیا کے ذریعے مذاق بنایا. آزاد عدلیہ اور وفاقی حکومت کی دانشمندی کا شکریہ کہ ابھی تک انہوں نے ایسی کوششوں پر کوئی فیصلہ نہیں کیا. موجودہ IGP کو قانون کے مطابق اپنی حیثیت کی وضاحت دینے کا موقع دینا چاہیے تھا جو ان کو نہیں دیا گیا جب تک ان پر سنگین الزامات عائد نہ ہوں ان کو قانون کے مطابق اپنی معیاد مکمل کرنی ہوگی. سیاستدانوں کے کہنے سے IGP کی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ آیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ” قانون کی حکمرانی” کیلئے خواہش مند ہیں یا ” شائد یہی صحیح ہے”. صوبائی حکومت کی شکایت ہے کہ موجودہ IGP کی کمانڈ میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر کل ہی کراچی کی مثبت درجہ بندی کی تعریف کی گئی ہے.

 

مزید خبریں

آپ کی راۓ