
بین الاقوامی تنازعات کے بہت سے شکار ہیں، لیکن ایک شکار ایسا ہے جسے گھر گھر میں کھایا جاتا ہے۔ اور یہ ہے پستہ۔
ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی سے پستے کی تجارت شدید متاثر ہوئی ہے۔دنیا بھر میں پستے کی سالانہ تجارت کی مالیت اربوں ڈالر ہے اور اس میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ پستے کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔پستے کی عالمی تجارت کا بڑا حصہ امریکہ اور ایران کے پاس ہے اور گذشتہ عشرے کے دوران ان دونوں ملکوں کا مشترکہ حصہ 70 اور 80 فیصد کے درمیان تھا۔گذشتہ 40 برس میں ایران میں پستے کے کاشت کاروں کو ملک پر عائد پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچنے میں مشکلات رہی ہیں۔پستہ خود ممنوعہ اشیا کی فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن عالمی بینکنگ پر قدغنوں کی وجہ سے ایرانی کاشت کاروں کو کاروبار کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ البتہ 2016 میں ایران کے ایٹمی معاہدے کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے اور ایران پر پابندیاں ہٹ گئیں۔اس کے بعد سے صرف ایرانی تیل ہی نہیں بلکہ پستہ بھی سمندر پار منڈیوں تک پہچنے لگا۔تاہم اس پیش رفت کو تازہ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکی تاریخ کا ‘بدترین’ معاہدہ قرار دیا ہے۔اکتوبر میں انھوں نے معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد اب یہ امریکی کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ آیا ایران معاہدے کی شرائط کی پاسداری کر رہا ہے یا نہیں۔ایران کی پستے کی صنعت کے لیے یہ بری خبر ہے۔ انجمن پستہ ایران کے ڈپٹی ڈائریکٹر حجت حسنی سعدی نے کہا کہ اس سے ‘غیر منصفانہ اور غیر مساوی’ پابندیاں واپس آ جائیں گی۔’ایران میں پستے کی صنعت ہزاروں برس پرانی ہے۔ اس کے مقابلے پر امریکہ میں پستہ پہلی بار 1930 کی دہائی میں ایرانی بیجوں کی مدد سے اگایا گیا تھا۔1979 میں امریکی مغویوں کے بحران کے بعد امریکہ اور ایران کے رابطے منقطع ہو گئے جس کے بعد امریکہ میں پستے کی صنعت کو فروغ ملا۔اس کے بعد کے عشروں میں ایرانی کمپنیوں کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں تک رسائی محدود ہونے کی وجہ سے ایرانی پستہ ایسے ملکوں تک برآمد کرنا بھی مشکل ہو گیا جن کی طرف سے ایران پر پابندیاں نہیں تھیں۔تاہم اسی دوران امریکہ میں پستے کی صنعت خاصی پھلنے پھولنے لگی اور خاص طور پر کیلی فورنیا کے کسان اسے اگانے لگے۔تاہم 2014 میں امریکہ بھر میں خشک موسم کی وجہ سے پستے کی صنعت کو نقصان پہنچا اور اس کی تقریباً نصف فصل تباہ ہو گئی جس سے منافعے میں 1.4 ارب ڈالر کی کمی واقع ہو گئی۔اس سے عالمی سطح پر پستے کی قیمت میں اضافہ ہوا اور ایرانی کاشت کاروں کو موقع مل گیا۔پستے کی قیمتیں 2002 کے بعد سے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ پستے کے امریکی کاشت کاروں کی ایسوسی ایشن اے پی جی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رچرڈ میٹوئن اس کی وجہ پستے کی صحت بخش خصوصیات کو قرار دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ‘صنعت اشتہاروں کی مدد سے خود کو پھیلا رہی ہے،’ جس کی وجہ سے متوسط طبقے کی طرف سے مانگ میں اضافہ ہوا ہے، اور برآمدات بھی بڑھی ہیں۔پستے کی بین الاقوامی تجارت میں پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب چین کی طرف سے بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔ اے پی جی کے مطابق 2008 اور 2013 کے درمیان چین کی پستے کی درآمدات میں 146 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔2014 میں کیلی فورنیا میں آنے والی قحط سالی کے باعث پستے کی قیمت تین ڈالر فی پاؤنڈ سے بڑھ کر پانچ ڈالر فی پاؤنڈ ہو گئی۔اسی سال ایران میں پستے کی فصل اچھی ہوئی تھی۔ ایرانی صنعت نے چین میں امریکہ کی نسب 0.2 ڈالر فی پاؤنڈ کم قیمت پر پستہ فراہم کرنا شروع کر دیا۔2016 میں امریکہ میں پستے کی فصل بہتر ہوئی اور وہاں بھی قیمتیں کم ہو گئیں۔ایران کو ایک اور فائدہ بھی ہے، اور وہ ہے اس کا محلِ وقوع۔ میٹوئن کہتے ہیں کہ ‘ایران کو نقل و حمل کی فوقیت حاصل ہے۔ وہ بڑی آسانی سے منڈیوں پر قبضہ کر سکتے ہیں اور چین اس کی ایک مثال ہے۔’ایران کو صرف جغرافیائی فوقیت ہی نہیں ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پستے زیادہ خوش ذائقہ ہیں۔ حالانکہ امریکی اور ایرانی ایک ہی قسم کے بیج استعمال کرتے ہیں، جب کہ مثال کے طور پر ترکی پستے کا ذائقہ مختلف ہے۔ تاہم یہی دعویٰ یورپی آڑھتیوں کا بھی ہے کہ ان کا پستہ سب سے لذیذ ہے۔امریکہ نے ایرانی پستے پر 241 فیصد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پابندیوں کے علاوہ بھی امریکی منڈی ایران کی پہنچ سے باہر ہے۔دوسری طرف خود ایران کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ سعدی کہتے ہیں کہ یہ ان کی صنعت کے پھیلاؤ میں ‘بڑی رکاوٹ’ ہے۔امریکہ میں 2016 کی اچھی فصل کے بعد وہ اب دنیا میں پستہ پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے، جب کہ ایران دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ دونوں ملک مل کر دنیا بھر میں پستے کی منڈیوں پر چھائے ہوئے ہیں۔دنیا بھر میں پستے کے شائقین چاہتے ہیں کہ ایرانی پستے کو منڈیوں تک رسائی دی جائے تاکہ اس خشک میوے کی قیمت کم ہو اور وہ زیادہ آسانی سے اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔