ملک میں نئی حلقہ بندیاں، پنجاب کی نشستیں کم، پختونخوا کی زیادہ

548

پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کروانے پر اتفاق کیا ہے۔

سنہ 2018 میں عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر ہوں گے تاہم ان سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنے پر متفق نہیں تھے اور ان رہنماؤں نے قومی اسمبلی کی موجودہ نشستیں 272 رکھنے پر ہی اتفاق کیا ہے۔

نئی حلقہ بندیوں کے مطابق آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 9 نشستیں کم کر د ی جائیں گی۔ ان میں سے پانچ نشستیں صوبہ خیبر پختونخوا، تین نشستیں صوبہ بلوچستان جبکہ ایک نشست وفاقی دارالحکومت کو مل جائے گی جبکہ صوبہ سندھ کی نشستوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔

صوبہ پنجاب سے جو 9 نشستیں کم کی گئی ہیں ان میں 7 جنرل جبکہ دو مخصوص نشستیں شامل ہیں۔

اس وقت قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ جنرل نشستیں صوبہ پنجاب کی ہیں جن کی تعداد 147 ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے یہ تعداد کم ہو کر 140 رہ جائے گی جبکہ مخصوص نشستیں کم ہو کر 33 رہ جائیں گی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی جنرل نشستوں کی تعداد 34 ہے ان میں چار نشستوں کا اضافہ ہو گا جبکہ ایک مخصوص نشست بھی بڑھا دی جائے گی۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں اس وقت جنرل نشستوں کی تعداد 14 ہے جس میں دو نشستوں کا اضافہ ہوگا اور اس کے علاوہ ایک مخصوص نشست بھی بڑھائی جائے گی۔

سندھ میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 61 ہے جس کو برقرار رکھا گیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں عام انتخابات دو نشستوں پر ہوتے ہیں جبکہ اگلے سال اس میں بھی ایک نشست کا اضافہ کیا جائے گا اور یہ تعداد 3 ہو جائے گی۔

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 11 ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن کے علاوہ سیکریٹری شماریات اور نیشنل ڈیٹا بیس رجٹسریشن اتھارٹی کے حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک آئینی ترمیم دو نومبر کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی جہاں سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں بھجوایا جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد جب یہ ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی تو پھر اس پر کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن اور متعقلہ حکام کو بھجوایا جائے گا جو نئی حلقہ بندیوں پر کام کریں گے۔ واضح رہے کہ اس سال ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

حزب مخالف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے تحفظات کے ساتھ اس پر اتفاق کیا ہے اور اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ اس کے خلاف عدالتوں میں جانے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

ان جماعتوں کے رہنماؤں نوید قمر، شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیے جانے والے بل پر حتمی بریفنگ یکم نومبر کو دی جائے گی۔

مزید خبریں

آپ کی راۓ