
اسلام آباد:ویب ڈیسک
سلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔اس سے پہلے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر تین ریفرنسز میں باضابطہ فردِ جرم عائد کرتے ہوئے سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی۔
عدالت سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں ان کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست پر منگل کو جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کل ان کا بغض اور غصہ ان کے الفاظ میں سامنے آ گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جو الفاظ آئے ہیں اس میں وہ بغض ڈھل گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ’ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارا بغض، غصہ اور سارے الفاظ تاریخ کا سیاہ باب بنیں گے۔‘سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ’ گذشتہ 70 سالوں میں کئی سیاہ اوراق ہماری عدلیہ کی جانب سے لکھے گئے، جب بھی ڈکٹیٹر آئے ہیں اور آج جو فیصلہ آیا ہے وہ بھی سیاہ باب میں لکھا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی جانب سے نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے دائر کردہ درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے متعلق حقائق غیر منتازع تھے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کر دیا گیا۔
23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کی جانب سے جھوٹا بیان حلفی دیے جانے کو عمومی انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی جانب سے پاناما فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں اور احتساب عدالت شواہد کا قانون کے مطابق جائزہ لے کر ضیعف شواہد کو رد کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔
احتساب عدالت میں دائر ریفرنسز پر سماعت کے دوران عدالت میں سابق وزیراعظم کے خلاف چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی اور اس پر ان کے دستخط لیے گئے۔
سماعت کے موقع پر سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر احتساب عدالت میں موجود تھے۔
سابق وزیراعظم نے فردِ جرم عائد ہونے کے بعد صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں وہ سیاسی ہیں اور انھیں شفاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے۔
احتساب عدالت پہلے ہی سابق وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ان کے نمائندے کے سامنے تینوں ریفرنسز میں ان پر فرد جرم عائد چکی تھی۔
سماعت کے دوران نواز شریف نے عدالت سے مقدمات میں اپنی حاضری سے متعلق استثنیٰ کے بارے میں پوچھا کہ آیا ان کا کوئی نمائندہ آئندہ سماعت پر ان کی جگہ عدالت میں پیش ہو سکتا ہے تو اس پر عدالت نے ان سے تحریری درخواست دینے کو کہا۔
اس کے بعد سابق وزیراعظم کی جانب سے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ سے متعلق درخواست دائر کر دی گئی۔
اس سے پہلے بدھ کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب ریفرنسز کی سماعت میں ریفرنسز کو اکٹھا کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کی تفصیل بعد میں جاری کی جائے گئی۔
جج محمد بشیر نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی جانب سے دائر کی جانے والی ان درخواستوں کو دوبارہ سماعت کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
منگل کو احتساب عدالت میں نواز شریف کی جانب سے خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کے خلاف تینوں ریفرنسزایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے انھیں یکجا کیا جائے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے کچھ حوالے دیے جن میں ایک ہی قسم کے ریفرنسز کو یکجا کیا گیا تھا۔
تاہم وہاں موجود نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے کہا کہ ‘چونکہ تینوں ریفرنسز نیب نے خود نہیں بنائے بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بنائے گئے ہیں اس لیے عدالت اس میں کچھ نہیں کر سکتی۔’