پنجاب میں ہزاروں اسکول کیسے خطرناک ترین ٹھہرائے گئے ہیں؟ جانئے

2027

 صوبائی حکومت کے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے پنجاب بھر کے مختلف اضلاع میں موجود سرکاری اسکولوں میں سے 2 ہزار سے زائد درسگاہوں کی عمارتوں کو ان کی خستہ حالی کے باعث خطرناک قرار دے دیا گیا۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے جنوبی علاقوں میں 7 سو 74 اسکول خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں قائم ہیں۔

جنوبی پنجاب کے جن اسکولوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے ان میں سے 31 بہاولپور میں، 81 بہاولنگر میں جبکہ 87 رحیم یار خان میں میں قائم ہیں۔

علاوہ ازیں ڈیرہ غازی خان 149، لیہ میں 68، مظفر گڑھ میں 47 جبکہ راجن پور میں 58 اسکول ایسے جہاں طالبِ علم خطرناک قرار دی گئی عمارت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں

محکمہ اسکول ایجوکیشن کے مطابق فیصل آباد میں 154، چنیوٹ میں 10، جھنگ میں 129 جبکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 84 اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت کو خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

خطرناک قرار دیئے گئے ان اسکولوں کی تعداد گوجرانوالہ میں 74، گجرات میں 8، حافظ آباد میں 41، منڈی بہاؤ الدین میں 78، نارووال میں 15 جبکہ سیالکوٹ میں 81 ہیں۔

پاکستان کے مستقبل لاہور میں 109، قصور میں 50، شیخوپورہ میں 25 جبکہ ننکانہ صاحب کے 67 خطرناک قرار دیئے گئے اسکولوں کی عمارات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

محکمہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خطرناک قرار دی گئی عمارت میں قائم اسکولوں ملتان کے 109، خانیوال کے 65، لودھراں کے 55 جبکہ وہاڑی کے 24 اسکول بھی شامل ہیں۔

اس طرح راولپنڈی کے 95، اٹک کے 94، چکوال کے 49 جبکہ جہلم کے 39 اسکول ایسے ہیں جو خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں قائم ہیں۔

ساہیوال کے 68، پاکپتن کے 67، اوکاڑہ کے 92، سرگودھا کے 44، میانوالی کے 43، بھکر کے 81 جبکہ خوشاب کے 90 اسکولوں کے طلبہ بھی خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں بیٹھ کر اپنے مستقل کو سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مزید خبریں

آپ کی راۓ