
آپ نے کتنے لوگوں کو اپنی کم سونے کی عادت کے بارے فخریہ طور پر کہتے سنا ہو گا مگر نیند کی کمی ہمارے دماغ اور جسم کو حیرت انگیز طرح سے متاثر کر سکتی ہے۔
یہاں تک کہ کم سونے والوں کے بارے میں جان کر آپ کو ان کے فیصلوں اور معقولیت پر شک گزرنے لگے گا۔
پروفیسر میتھیو واکر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں نفسیات اور علم الاعصاب کے استاد ہیں۔
وہ ‘ہم کیوں سوتے ہیں’ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتاب ممکنہ طور پرآپ کی زندگی بدلنے (عمر بڑھانے) کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان کے خیال میں لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں اور تھوڑے وقت میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ایسے لوگ نیند پوری نہیں کرتے۔
ہم اپنی جسمانی ضروریات کو زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کر سکتے۔ نیند کا پورا کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ طبعیت کی خرابی اور امراض کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
پروفیسر میتھیو واکر کا یہ مضمون نیند کی اہمیت اور صحت افزا طرز زندگی کے بارے میں ہے۔
لاکھوںمریضوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیند اور عمر کا براہِ راست تعلق ہے۔ نیند جتنی کم ہوگی عمر بھی اتنی ہی کم ہوگی۔
لہٰذا اگر آپ زیادہ جینا اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو نیند پوری کرنے کے لیے جو بن پڑے کریں۔
نیند خود کو صحت مند رکھنے کا ایسا نسخہ ہے جس پر کچھ خرچ نہیں آتا اور نہ ہی یہ کوئی کڑوی دوا ہے جسے پینے سے انسان ہچکچائے۔
درحقیقت نیند کے اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ پروفیسر واکر نے ڈاکٹروں کو قائل کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو نیند بطور علاج تجویز کریں۔
نیند کے لاتعداد فائدے ہیں۔ ذہن اور جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو کم نیند کی وجہ سے بری طرح متاثر نہ ہوتا ہو مگر نیند قدرتی ہونی چاہیے کیونکہ نیند کی گولی سے دوسرے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں موت کا سبب بننے والے تقریباً تمام امراض کا تعلق کسی نہ کسی طور نیند کی کمی سے ہے۔
ان میں الزائمر یا بھولنے کی بیماری، کینسر، امراضِ قلب، موٹاپا، ذیابیطس، ڈپریشن، ذہنی پریشانی اور خودکشی کا رحجان شامل ہیں۔
تمام جسمانی اور ذہنی افعال کی ٹھیک طور پر انجام دہی کے لیے نیند ضروری ہے۔
کیونکہ ہمارے جسم اور دماغ میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت نیند کے دوران ہوتی ہے اور ہم تازہ دم ہو کر بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر نیند پوری نہ ہو تو مرمت بھی نامکمل رہتی ہے۔
50 سال پر مبنی سائنسی تحقیق کے بعد نیند کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوال یہ نہیں کہ ’نیند کےفائدے کیا ہیں’ بلکہ یہ ہے کہ ‘کیا ایسی بھی کوئی چیز ہے جس کو نیند سے فائدہ نہیں پہنچتا‘۔
اب تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی جس کے لیے نیند کو مفید نہ پایا گیا ہو۔
سات گھنٹے سے کم نیند جسمانی اور ذہنی کارکردگی اور بیماریوں کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے۔
20 گھنٹے تک مسلسل جاگتے رہنے کا اثر انسان پر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کسی نشہ آور چیز کے قانونی حد سے زیادہ لینے کا۔
نیند کی کمی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو فوری طور پر اس کے برے اثرات کا علم نہیں ہوتا۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی نشہ میں دھت شخص خود کو بالکل ٹھیک ٹھاک سمجھتا ہے۔مگر آپ جانتے ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔
گذشتہ 100 برس کے دوران ترقی یافتہ ملکوں میں نیند میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اب لوگوں کو گہری نیند نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ خواب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ حالانکہ خواب کا آنا ہماری تخلیقی صلاحیت اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔
(گہری نیند کو طب کی اصطلاح میں ’آر ای ایم سلیپ‘ یا ریپِڈ آئی موومنٹ سلیپ کہتے ہیں۔ یعنی وہ نیند جس میں آنکھیں گاہے گاہے تیزی سے حرکت کرتی ہیں اور اچھے خواب آتے ہیں۔)
بالفاظِ دیگر گہری نیند یا آر ای ایم ہمارے لیے جذباتی سطح پر ابتدائی طبی امداد فراہم کرتی ہے مگر کم نیند کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ نیند کے بارے میں ہمارا تصور ہے۔ اگر آپ کسی سے کہیں کہ نو گھنٹے کی نیند ضروری ہے تو وہ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھے گا۔
کیونکہ عام لوگوں کے خیال میں اتنی دیر تو کوئی کاہل شخص ہی سوتا ہے۔ زیادہ سونے کی عادت اتنی بدنام ہو گئی ہے کہ لوگ فخریہ بتاتے ہیں کہ وہ کتنا کم سوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں جب کوئی بچہ زیادہ سوتا ہے تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بچوں میں زیادہ نیند کو نشو ونما کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مگر عمر کے بڑھنے کے ساتھ نیند کے بارے میں ہمارا رویہ بدلنے لگتا ہے۔ بلکہ زیادہ سونے والوں کی سرزنش کی جاتی ہے
ہمیں اچھی اور صحت افزا نیند کے لیے ایک ہارمون یا کیمیائی مادے ’میلاٹونِن‘ کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارا جسم صرف تاریکی میں ہی پیدا کرتا ہے۔
بد قسمتی سے صنعتی ترقی کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اب ہم مسلسل روشنی میں نہائے رہتے ہیں۔
یہ ایل ای ڈی سکرینز کے ساتھ بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ نیلے رنگ کی روشنی میلاٹونن کی پیداوار کو اور کم کر دیتی ہے۔