کسی بھی ملک میں امن و امان کا قیام پولیس کی بنیادی
ذمہ دار ی ہو تی ہے جوبہرحال قانون و انصاف کے اصولوں کے تابع رہتے ہوئے پوری کیجاتی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں کی پولیس اپنا عوام دوست مثبت امیج ثابت کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہے مگر ترقی پذیر ملکوں میں پولیس کو تا حال وہ مقام حاصل نہیں جس کی بنا پر عام آدمی پولیس نظام پر فخر کر سکے۔ ترقی پذیر ملکوں کی صف میں موجود ہونے کے ناطے پاکستان میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ ہم ہر وقت پولیس کی کرپشن کا رونا تو روتے ہیں مگر بد قسمتی سے ان اسباب کے سد باب کی کوئی قابل قدر یا سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہوئی جو پولیس کے مثبت امیج میں رکاوٹ کا باعث ہیں
بہت جلد جیو قائد آپ کے لئے لا رہا ہے شہر شہر کی پولیس کہانی ایسی کہانیاں جنہوں نے سہاگ اجاڑ دئیے اور ایسی کہانیاں جس سے پولیس نے گھر سنواردئیے، ہمارے ملک کی پولیس کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں، ہمارےہاں ایسے آفیسرز پائے جاتے جن کی ایمانداری کی مثالیں عام ہیں مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔لوگوں کےگھر اجاڑنے والی پولیس گردی کا گراف بہت بڑھ چکا، ریاست مدینہ کے دعوے کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت میں ایسے لوگ ہیں بشمول وزیر اعظم پاکستان جو پولیس کی پرفارمنس کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگریہ کیسے ہوگا؟ اس کے لئے وقت درکار ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ برگیڈئیر اعجاز شاہ سے جیو قائد کے نمائندوں کی ملاقات کے دوران آپ نے کہا ملک بھر میں پولیس کی کسی افسر کی کرپشن کو سامنے لائیں کرپٹ لوگوں کو نہیں بخشا جائے گا۔ وزیر داخلہ کے علاوہ آپ کے اسٹاف کے لوگوں کو بہاولپور میں تعینات پڑھے لکھے آفیسر کے بارے میں بتایا گیا۔ ایک نام اے ایس پی میر روحیل کچھ عرصہ سے بہاولپور کی عوام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں آپ کا میرٹ پر کام کرنے کا انداز ہی نرالا ہے بہاولپور شہر سے میر روحیل کی ایمانداری کی مثالیں داالحکومت تک کیسے آئیں ، صرف عوام کو موجودہ حالات میں انصاف دلانے کا جزبہ سامنے لے ہی آتا ہے۔ آج کل جہاں پڑھے لکھے پولیس آفیسرز کی ایماندادی کی کہانیاں زبان زدے عام ہیں تو وہی بعض ایس ایچ اوز کی بھی بھرمار ہے جنکی کرپشن جس کا ثبوت ملنا مشکل ہے وہ قتل کے مقدمے میں تو بھاری رشوت لے کے ثبوت مٹا دیتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ایسے ایس ایچ اوز جن کی صلاحیت ایک تھانے چلانے کی نہیں ہوتی وہ تھانوں پر قابض ہیں اور وہ صرف موٹر سائیکل سواروں کی حد تک پانچ پانچ سو کی رشوت لے کر موٹر سائیکلز کی پکڑ دھکڑ تک محدود ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی تشہیر کے لئیے باقاعدہ سوشل میڈیا کی ٹیم بنا رکھی ہے اور منشیات کے چھوٹے چھوٹے کیسسز کو بڑا بڑا پیش کر کے اپنے آفیسرز سے انعامی رقم لےکر اس کی تشہیر کو بھی ہاتھ سےجانے نہیں دے رہے، بعض ایس ایچ اوز ایسے بھی ہیں جنہوں نے باقاعدہ اپنی لیگل ٹیم بنا رکھی ہے بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں تا کہ کوئی بھی انکی کرپشن کہانی کو اجاگر نہ کر سکے۔ جیو قائد کا مشن پولیس کہانی کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے جس میں اس ادارے سے جو کے عوامی خدمت کے لئے بنایا گیا تھا اس میں کالی بھیڑوں کی نشاندہی کی جائے گے وفاقی اور صوبائی وزرا کے علاوہ آئی جیز تک ایکشن لینے کی اپیل کی جائیگی۔ وزیراعظم عمران خان کی خیبر پختونخواپولیس میں کافی بہتری کے بعد اب ان کا فوکس پنجاب پولیس ہے اس لئے جیو قائد کی حکام بالا سے ملاقاتوں کے بعد پولیس کے ادارے میں کالی بھیڑوں کو سامنے لانے کا بیڑا جیو قائد نے اٹھا لیا ہے،تفصیلات حکام بالا تک پہچائی جائے گی۔ بتایا اور دیکھایا جائے گا کہ کتنی پولیس غیر سیاسی ہے۔ اور کیسے بعض ایس ایچ اوزپیسے لیتے ہیں انکا طریقہ کیا ہے؟ پیسے اوپر تک کیسے پہنچائے جاتے ہیں؟ اوپر پیسے پہنچائے بھی جاتے ہیں یا صرف باتیں ہیں۔
دیکھتے اور پڑھتے رہئیے پولیس کہانی صرف جیو قائد پر۔۔۔۔!
Coming soon………….