آڈیو سنئے
مجھے اچھی طرح یاد ہےجب 2003 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آبادآیا تو گرمیوں کے دنوں میں جس روزدرجہ حرارت کچھ زیادہ ہوتا بارش شروع ہوجاتی اور موسم صحیح رنگین اور خوشگوار ہو جاتا۔میں اگر اپنے دماغ پر زور دوں تو میری یاداشت اور ذاتی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پچھلے تین چار سال میں یہ صورتحال یکسر بدل سی گئی ہے۔ملک کے دوسرے صوبوں میں چونکہ کم آنا جانا ہوتا ہے اس لئے ان سے متعلق ذاتی مشاہدہ تو نہیں بیان کرسکتا ہاں البتہ اسلام آباد کی طرح وسطی پنجاب کےضلع حافظ آباد میں میرے گاؤں سکھیکی،شمالی اور جنوبی پنجاب کے بعض شہروں میں آنا جانا رہتا ہے لہذا کہہ سکتا ہوں کہ صورتحال وہاں بھی تقریبا اسلام آباد سے ملتی جلتی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور واقعات سے گزر رہا ہے جن کے سبب پیدا ہونے والے مسائل میں سیلاب، خشک سالی، طوفان، شدید بارشیں اور گرم درجۂ حرارت اور اب اسموگ شامل ہیں۔اب ہم اسموگ کی وجوہات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ہمارے موسم والے محمد حنیف صاحب کی معاونت سے برادرام طاہر جعفری نے میٹ ڈیپارٹمنٹ کے چیف میٹرالوجسٹ محمد ریاض صاحب سے بات کی انکا کہنا تھا کہ دھوئیں اورمتعدد ذرائع سے فضا میں روزانہ شامل ہونے والی گیسز جب بارش اور تیز ہوا نہ چلے تواسموگ کی خطرناک شکل میں ظاہر ہوتی ہیں، لاہور سےشاہد وفا اور ملتان سے شیرازدرانی نے بھی رپورٹ کیا کہ سموگ زدہ علاقوں کے عوام بہت سی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔مجھے اس معاملے پر تحقیق سے پتا چلا کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب میں فصلوں کے بھوسے کو لگائی جانے والی آگ سے اٹھنے وال دھواں، کارخانے، فیکٹریاں اور خصوصا نئے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر تو آلودگی میں حصہ ڈال ہی رہے ہیں،اس کے علاوہ اس آلودگی کا ایک پوشیدہ اور اہم ذریعہ مغربی دنیا سے آنے والا سکریپ ہے،مغربی ممالک نے پاکستان سمیت مدد کے نام پر دنیا کے پسماندہ ملکوں کو اپنی ضائع شدہ اشیاءکا کوڑے دان بنا رکھا ہے۔پاکستان میں ہر سال لاکھوں من الیکٹرونک کوڑا جس میں کمپیوٹر ، مانیٹر ، کی بورڈ ،موبائل فون ،ٹی وی ، ریفریجریٹرز اور دیگر اشیاء آتے ہیں جو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے مہلک ترین گیسوں کی پیداوار کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ان سے پیدا ہونے والی گیسز،کینسر جیسے موذی امراض اور خطرناک فضائی و زمینی آلودگی پیدا کر رہی ہیں۔اس کوڑے سے نکلنے والا سونا اور چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کے لالچ میں بعض مقامی تاجر اس کوڑے کے نقصانات سے بے خبر اسکی درآمد میں ہر سال اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ آئندہ ایک سے دو دہائیوں میں اس کے نتیجے میں کیا گھمبیر اثرات مرتب ہونگے متعلقہ سرکاری ادارے اس سے مکمل بے خبر دیکھائی دیتے ہیں شاید اسی لیے وہ اس قیمتی کوڑےکے تدارک کیلئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کر رہے۔ برطانیہ کی ساﺅتھ ویلز کمپنی سالانہ 40لاکھ کمپیوٹر ، 5لاکھ ٹیلی ویژن ،30لاکھ ریفریجریٹر ، 40لاکھ دیگر الیکٹرک اشیاءاور 2کروڑ موبائل فون پر مشتمل کوڑا پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ملکوں کو برآمد کرتی ہے۔افریقی ملکوں کے عوام نے خطرات کو بھانپتے ہوئے اس کوڑے کے خلاف 23 سال قبل شدیداحتجاج کر کے ڈیجیٹل سکریپ کی درآمد پر مکمل پابندی لگوادی تھی جس کے بعد یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے جنوبی ایشیاءکا رخ کر لیا۔اگرچہ پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت کوئی ایسا سکریپ ملک میں داخل نہیں ہو سکتا جو انتہائی خطرناک ہو اور عوام کی صحت کیلئے مضر بھی ہو مگربعض اداروں کے کچھ لالچی اہلکاروں کی وجہ مختلف بہانوں سے اس کی درآمد بآسانی ہو رہی ہے۔ ملک کے بچوں کے مستقبل کیلئے اس سکریپ کو پاکستان میں داخل ہونے سے فوری روکنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق گذشتہ کئی برسوں سے اوسط عالمی درجۂ حرارت میں جاری اضافے کی وجہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر زہریلی گیسز کی بڑھتی ہوئی مقدار ہے اورپچھلے برسوں میں درجہ حرارت میں 0.8 سینٹی گریڈ اضافہ ہوا اور امکان ہے کہ یہ مزید 1.0 سے بڑھتا ہوا اس صدی کے آخر تک 4.0 تک پہنچےسکتاہے۔گلوبل وارمنگ، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔پیرس میں عالمی راہنماؤں نے زمین کا درجہ حرارت 2ڈگری سیلسیئس کم کرنے جبکہ مزید 1.5ڈگری سیلسیئس کم کرنے کے لئے کوششیں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔دنیا کی صورتحال ایک کشتی کی مانند ہے جس میں اگر سوراخ ہوا تو سب ڈوبیں گے،اب رواں ہفتے کے دوران جرمنی میں ماحولیات پر عالمی راہنماؤں کا اجلاس ہو رہا ہے میرا نقطہ نظر ہے کہ عالمی برادری کےماحولیات سے متعلق وعدوں پر عمل کرنے کا وقت ہے ورنہ غفلت ہوئی تو تیسری دنیا البتہ پہلے ڈوبے گی مگر بچیں گے ترقی یافتہ بھی نہیں۔۔۔۔!!!
پاکستان میں ہمیں اپنی زمینوں اور ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے مضبوط بنیادوں پر کام کرناہےخصوصا ترقیاتی منصوبے تشکیل دیتے وقت قدرتی ماحول کی بقاء کو پیش نظر رکھناہے کیونکہ صحت افزا اور صاف ستھرے ماحول کی بقاء سے ہماری نسلوں کی بقاءجڑی ہے۔ہمارا اہم ترین مسئلہ پانی کا بھی ہےجو دن بدن کم ہورہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہیں ہیں اور ملک کی آبادی کے ساتھ ساتھ جنگلات کا کٹاو بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ہماراشعوری عالم یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دن دیہاڑے ترقیاتی کاموں کے نام پر دھڑا دھڑ درخت کاٹے جارہے ہیں،اتنے پڑھے لکھے باشعور شہر میں کوئی ایک نہیں جو درختوں کے قاتلوں کو روکے۔۔۔۔۔!!!!
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنگلات 3 فیصد کے حساب سے کٹتے جارہے ہیں جس سے زرعی زمینیں آبادیوں کی شکل اختیار کرہی ہیں۔ یہ نہ صرف آنےوالی نسلوں کےلئے باعث پریشانی ہوگا بلکہ مذید زمینی اور فضائی آلودگی کا بھی باعث بنےگا۔ پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کے نقطہ نظر سے جنگلات کے کٹاوکی روک تھام کے لئے باقاعدہ قانون اور اس پرعملدرآمد ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی مسائل جن میں سرفہرست فضائی آلودگی ہے سرحدوں تک محدود نہیں ہوتےان کے اثرات متاثرہ علاقوں سے پھیل کر دوسرے ملکوں تک پھیل جاتے ہیں۔ افغانستان وہ ملک ہے جس کے پڑوس میں رہنے کے باعث پاکستان نے بہت زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ فضائی آلودگی اور”بموں کی ماں” سمیت امریکہ کی طرف سے افغانستان میں مہلک ہتھیاروں کا استعمال اور وہاں جنگلات کی کٹائی نے پاکستان میں مون سون کے نظام کو بھی بے ترتیب کردیا ہے۔ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے لحاظ سے بہت زیادہ خطرے کی حالت میں ہیں۔پاکستان کے علاوہ بھی درجہ حرارت سے دنیا کے مختلف خطوں میں قابلِ ذکر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک نے بتایا کہ موسموں کی شدت اور دورانیے میں اضافے کے سبب بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سالانہ دورانیہ میں کمی ہوئی ہے جس سے سیلاب آرہے ہیں اور اس بے ربطی سےملک میں خشک سالی، گرمی کی لہر میں اضافہ ہواہے۔اگر دیکھا جائے تو ایک زمانہ تھا جب برسوں بعد اگر کبھی ساون میں بہت زیادہ بارش ہوجاتی تو سیلاب آتا تھا، میرے والد گرامی چوہدری ولی محمد مرحوم کیونکہ اپنے علاقے کے بڑے سماجی کارکن تھے وہ ذکر کیا کرتے تھے ایک سیلاب کا جو ہماری ہوش بلکہ پیدائش سے پہلے اسی یا ستر کی دہائی کے آخرمیں دریائے چناب میں آیا تھا اور اس سے پنڈی بھٹیاں کے کئی گاؤں اور دیہات متاثر ہوئے ابو کیونکہ سوشل ورکر کے ساتھ ٹرانسپورٹر بھی تھے وہ تاریخ کے اس بڑے سیلاب میں ذاتی ٹرکس میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کھانے پینے اور امدادی سامان لے کر روزانہ کی بنیاد پرمتاثر ہ دیہاتوں میں جاتے تھے،ہم ان سے واقعات سنتےتھے جبکہ ابو کے دوستوں کے پاس اس سیلاب اور امدادی کاموں کی کچھ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بھی میری نظر سے گزری ہیں۔مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ 2010 کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں تقریباہر سال ہی سیلاب آتا ہے جس سے معمولاتِ زندگی شدید متاثر ہورہے ہیں، اس کے علاوہ ملک کے جنوبی حصوں میں 1998ءسے2001ءجبکہ تھر پارکر اور چولستان میں2014ءکے دوران خشک سالی جیسے مسائل بھی پیدا ہوئے۔یہ جتنے ماحولیاتی مسائل ہیں ان میں ہمارا اپنا بھی ہاتھ ہے۔مثلا پچھلی دہائی میں نالہ لئی کے سیلاب سےراولپنڈی کے شہری اس لئے متاثر ہوئے کہ پورا سال کوڑا کرکٹ گرا کربارشوں کے گزرنے کا راستہ ہی بند کر دیا گیا۔۔!
ہمیں عوامی سطح پر الیکٹرانک پرنٹ،سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عوام میں ماحول کی حفاظت کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ماحول کو آلودگی سے بچانے میں کوئی غفلت برتی تو اس کا خمیازہ اورانتہائی سنگین نتائج ہماری آنے والی نسلوں بھگتنا پڑیں گے۔
ہم لوگ، خاص طور پر شہروں میں رہنے والے، موسموں کی تبدیلی کو زیادہ محسوس نہیں کرتے کیونکہ ہمارا زیادہ وقت چھت کے نیچے گزرا ہے تاہم گاؤں،دیہاتوں والے موسموں میں تبدیلی کا زیادہ نوٹس لیتے ہیں۔میرے تمام دیہاتی رشتہ دار اکثر گفتگو میں اس معاملہ پر تزکرہ کرتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا نظام ہے۔مگر میرا مؤقف ہے کہ اللہ کریم کی طرف سے تشکیل کردہ جامع نظام کا مقصد انسان کی بقاء اور فلاح ہے مگر ہم خود اس نظام میں مداخلت کر کے اپنے لئے تباہی پیدا کر ر ہے ہیں۔خطہ ارض پر قدرتی ماحول کو بحال رکھنا محض حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شخص کا انفرادی فریضہ ہے کہ وہ قدرت کےحسن کو آئندہ نسلوں تک صحیح پہچانےاور قائم رکھنے میں اپنا کردار اداکرےجبکہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ انفرادی کوششوں کو اجتماعی شکل میں ڈھال کر جامع منصوبہ بندی کرے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جاسکے اور ہماری آنے والی نسلیں بہار کو صرف کتابوں اور ادب کے ذریعےہی نہ جان سکیں بلکہ بذات خود اس سے لطف انداز ہوں
جمعرات کے روز ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد میں وزارت اطلاعات کے ذیلی ادارے کے زیر اہتمام یونیورسٹیوں میں ماس کمیونیکیشن کے طلبہ و طالبات کو دی جا...