میڈیا گیٹ کیپر کے بغیرآٹو پر چل رہا ہے۔۔؟؟

1745

آڈیو سنئے

 جمعرات کے روز  ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد میں  وزارت اطلاعات کے ذیلی ادارے کے زیر اہتمام یونیورسٹیوں میں ماس کمیونیکیشن کے طلبہ و طالبات کو دی جانے والی تعلیم پر مشاورتی اجلاس ہواجس کا بنیادی مقصد دہشت گردی، تصادم اور کرائسس کی رپورٹنگ اور ابلاغ سے متعلق  تعلیمی اداروں کے شعبہ ابلاغیات کیلئے موجودہ نصاب میں موضوع سے متعلق ابواب طے کرنا تھا۔مشاورتی اجلاس میں نامور استاد و دانشور ڈاکٹر مہدی حسن،ڈان کے سابق ایڈیٹرضیاء الدین،انفارمیشن گروپ کے ریٹائرڈ سینئرافسر شبیر انور، جیو سمیت بعض ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوزاور ملک کی مختلف جامعات کے شعبہ ابلاغیات کے اساتذہ اور سربراہان نےشرکت کی۔اجلاس کی عمومی گفتگو میں شرکاء نے یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغیات میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے خصوصا دہشت گردی اورتصادم کی رپورٹنگ سے متعلق اسے ناکافی اور  موجودہ تقاضوں سے مختلف قرار دیتے ہوئے اسے بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔مقررین نے کہا کہ پچاس سال پرانے نصاب میں بہتری کے علاوہ پاکستان کو درپیش چیلنجز اورجدید دور کے میڈیا کے بدلتے تقاضوں کے مطابق  طلبہ کے علاوہ اساتذہ کی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ تو تھی اس مشاورت میں عین موضوع پر گفتگو۔ اب میں کیونکہ صحافت کا ادنٰی طالبعلم ہوں اور یہ محفل صحافیوں کے استادوں کے استاد کی تھی تو اس میں میری دلچسپی کا بہت سامان تھا۔ موجودہ میڈیا کے کردار پربات ہورہی تھی تو ایک بڑے ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے کہا ”ہم وہ چلاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں” یہ سن کر ڈاکٹر مہدی حسن صاحب نے کہا کہ مطلب گیٹ کیپر کا کوئی رول نہیں۔۔۔!! آپ وہ دکھائیں جو لوگ پسند کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سال دو ہزار پندرہ میں گوگل نے ایک تفصیل جاری کی تھی کہ دنیا میں سب سے زیادہ فحاشی سے متعلق سائٹس کہا کہا سرچ کی جاتی ہیں ہم پاکستانی نمایاں نمبروں میں سے تھے، مطلب صاف نظر آتا ہے،اور لوگوں کا رجحان بھی پتہ پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ میں نے ایک ٹی وی چینل کے مالک سے پوچھا کہ آپکے چینل کا ”گیٹ کیپر”کون ہے،اس نے جواب دیا ”ایک ریٹائرڈ صوبیدار ہے” میں حیرت میں پڑ گیا کہ اس بڑے چینل کے مالک کو یہ تک نہیں معلوم کہ میڈیا میں گیٹ کیپر کون ہوتا ہے۔۔؟
سٹریم لائین پرنٹ اورخصوصا الیکٹرانک میڈیا میں پالیسی اور الفاظ کو چیک کرنیوالا ”گیٹ کیپر“ کا ادارہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔تنظیموں، اداروں اور گروپوں کے ذاتی اخبارات و رسائل اوربعض غیر سرکاری این جی اوز کے اپنے ترجمان اخبارات تو متعصبانہ طرز عمل اپناتے ہی ہیں ان میں ایک دوسرے کیخلاف سخت ترین الفاظ اور کفر تک کے فتوے استعمال ہوتے ہیں۔مگرآج اہم ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی جس طرح سے واقعات کی کوریج کررہے ہیں ہمارا معاشرہ طبقہ در طبقہ بٹتا چلا جارہا ہے۔ ذاتی نقطہ نظر سے میرا مذہب اور مسلک کچھ بھی ہو ذرائع ابلاغ پر اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے بہر حال مجھے ملک کے طول و عرض پر رہنے والوں کے جذبات اور ملک کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے، اب یہ کون بتائے گا کہ کیا ملک کا مفاد ہے اور کیا ملک کے مفاد کے برخلاف۔۔؟؟ تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ جس طرح انگلینڈ ،سعودی عرب ،روس،ایران سمیت کئی اہم ملکوں میں ریاست کا ایک بیانیہ ہے اور حدود و قیود طے شدہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی ایک تو ملک کا بیانیہ طے کر کے میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق ترتیب دینے اور  متعلقہ طبقوں کو ذمہ داری کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ہمارا اہم مسئلہ دہشتگرد کارروائیوں کی براہ راست کوریج بھی ہے جس سے افواہ ساز فیکٹریاں تیز ہو جاتی ہیں، جو اعصابی اور نفسیاتی جنگ میں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ کردار ادا کرتی ہیں لہذا حقائق اور اعداو شمار کو جتنا مختصر اور معروضی انداز میں دیا جائے اتنا ہی بہتر ثابت ہوگا۔ کسی قسم کی رنگ آمیزی یا خواہش کو خبر بنانے کی روش زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہتی۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داریاں اپنی جگہ پچھلے  پانچ دس سال میں سوشل میڈیا سب پربازی لے گیا ہے۔ اس پر چلنے والی کوئی بھی خبر، فوٹیج یا ویڈیو کلپ کی کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ذریعہ ظاہر کرنے کی بھی کوئی پابندی نہیں۔ بیشتر لوگ اپنے مطلب کا یکطرفہ اور متعصبانہ مواد اس پہ اپ لوڈ کرتے ہیں لوگ اس کو دھڑا دھڑ شیئر کرتے اور پھر ظلم کی حد کے ہمارے بعض نابالغ صحافی اس کو لائیو بیئپر کی شکل میں مین سڑیم میڈیا پر لے آتے ہیں۔جس اجلاس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں اس میں چیئرمین پیمراپیمراابصار عالم نے کہا کہ حقائق کے منافی رپورٹنگ معاشرے میں مسائل کا باعث بن رہی ہے۔انہوں نےکہا کہ چترال میں پی آئی اے کا جہاز  ابھی حادثہ کا شکار ہوا ہی تھا کہ ایک نجی چینلز نے کسی اور واقعہ کی جہاز کے اندر کی آہ و پکار چلا کر یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ جہاز کے اندر سے یہ ساؤنڈز موصول ہوئی ہے۔انہوں نےکہا کہ لاہور سلنڈر دھماکہ کے بعد دوسرا جھوٹا دھماکہ رپورٹ کیا گیا، جس سے لاہور کے عوام میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔اب میں کیونکہ رپورٹر ہوں اپنے دوستوں کے مسائل سمجھتا ہوں،میڈیا کیونکہ بہت پھیل چکا ہے اور تربیت یافتہ افراد کی کمی ہے اب بیشتر اخبارات اور چینلز میں ایڈیٹر کی کرسی پر وہ صاحبان براجمان ہیں جن کی تربیت صرف ریٹنگ اور خبر بریک کرنے کی ہے  اس کیلئے وہ ہر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، تو جہاز والی ساؤنڈ میں یہی ہوا ہوگا، رپورٹر نے کہا ہوگا،یا ایڈیٹر نے کہ کسی کو کیا پتہ چلے گا آپ چلا لو ریٹنگ تو بڑھے گی۔اور لاہور سلنڈر دھماکہ کے بعد دوسرے جھوٹے دھماکہ کی خبر ٹی وی نے اس لئے چلائی ہوگی کہ فوری خبر دی نہیں اب بتاؤں ایک اور دھماکہ ہوگیا،خدارا اپنی ریٹنگ اور جلدی کی بریکنگ میں ملک کے بچوں کو تو خوفزدہ نہ کرو۔۔!!! دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹنگ اورکوریج ایک خاص قسم کی صحافتی ذمہ داری کا تقاضا ہر قدم پر کرتی ہے، اخبارات کیلئے الگ لائحہ عمل طے ہونا چاہیے جبکہ پیمرا کی طرف سے چینلز کو لائیسنس دیتے وقت اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ متعلقہ چینل اپنے سٹاف کو ضروری تربیت دے گا،اور اگر ادارے تربیت نہیں کر سکتے تو پیمرا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی”اوگرا” کی طرز پر ان چینلز سے تربیتی مقاصد کے لیے سٹاف کی تعداد کے مطابق فیس چارج کرے اور ضابطہ اخلاق سمیت جدید تقاضوں کے مطابق عملے کی تربیت کی جائے۔۔۔ورنہ یہ کہانی ایسے ہی چلتی رہے گی۔۔!!! صحافی جب خبر دیتا ہے تو بعض دفعہ حقائق میں انیس اکیس کا فرق رہ جاتا ہے، مگر دہشت گردی سمیت حساس معاملات سے متعلق من گھڑت، غلط اورجھوٹی خبروں پر ذمہ داران پر سخت پینلٹی ڈالی جائے۔کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیےآزادی صحافت انتہائی ضروری ہے۔مگر ہمارے ہاں جو پریکٹس ہورہی ہے یہ تو مادر پدر آزادی ہے،میڈیا کو ذمہ دار بنانا ریاست سمیت ہر سٹیک ہولڈر کی ذمہ داری ہے۔

مصنف کی مزید تحاریریں

مجھے اچھی طرح یاد ہےجب 2003 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آبادآیا تو گرمیوں کے دنوں میں جس روزدرجہ حرارت کچھ زیادہ ہوتا بارش شروع ہوجاتی اور موسم صحیح رن...

آپ کی راۓ