
باکمال صحافی کی صحافت کو سلام
تحریر: چوہدری خالد عمر
نوٹ فرما لیجئے یہ تعریفوں کی گردان نہیں سچ کی پکار ہے۔جو میں نے دیکھا سیکھا بیان کیا ہے۔ یہ تحریر بدبودار اور منفی سوچ کے حامل افراد کے لیے نہیں ہے۔
ایسی ماں کو سلام جس کی کوکھ سے ایسےلعل پیدا ہوتے ہیں، جو برداشت کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حالانکہ جواب دینے اور اچھا تگڑہ جواب دینے کی ہر لحاظ سے صلاحیت کے با وجود بھی اچھی پرورش کا یہ عالم ہے کہ ہمیشہ محبت اور سائستگی کی بات کی ۔ تعصبیت سے پاک صاف مگر اپنوں کے حقوق کی ہر وقت جنگ لڑنے کے لیے تیار، مثبت صحافت کا با کمال صحافی میں بات کر رہا ہوں سلیم خان صافی پر۔جس کی صحافت سے میں نے بدتمیزی نہیں ، لفافہ لینے کا انداز نہیں اورناں ہی ریٹنگ کی خاطر معاشرے میں بیگاڑ کے بیج بونا، شخصیت پر منفی پراپیگنڈہ نہیں، موٹا پیسہ اور پلازے اور جائیدادیں بنانے کا طریقہ نہیں اور سب سے بڑھ کر منافقت نہیں سیکھی،زرد صحافت پر ہمیشہ تنقید کرنے والا سالوں سے صحافت کے شعبہ سے منسلک ہے مگر پیسہ نہیں بنایا، آج بھی کرائے کے مکان میں رہنے والے سلیم خان صافی جس ادارے میں کام کر رہے ہیں اسی کی طرف سے دی گئی سہولیات چاہے وہ گاڑی ہی یا گھر ہو پر اکتفا کئے ہوئے ہیں، وہ بھی جان کی دھمکیوں کی وجہ سے کئی بار ہم نے کہا کہ آپ آرمڈ کار کی ادارے سے اپیل کریں بڑی دفعہ کہنے اور مجبور کرنے پر انہوں نے ادارے سے بالاخر بلٹ پروف کی درخواست کی جو فورا پوری کی گئی۔ ایسے باکمال صحافی کے پیچھے چند ایسے لوگ پڑ گئے ہیں کہ جن کے ہاتھ میں آج کل دجالی سوشل میڈیا ہے۔ منفی پروپیگنڈہ کا یہ عالم کہ مجھ جیسے نا چیز کو بھی فون کالز آنا اور عوام کی محبتوں کے پیغامات ملنے معمول بن چکا اور مجھے پہلی دفعہ اس بات کا احساس ہوا کہ سچ میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ اور شر سے کیسے خیر برآمد ہوتا ہے گو کہ سچی باتوں کو مصلحت کے تحت ایک اچھا یا برا رخ دے کر کچھ وقت کے لیے خاموش تو کیا جا سکتا ہے مگر سچ چھپتا نہیں۔ کافی دنوں تک طوفان بدتمیزی کے تھم جانے کا انتظار اور کچھ تھم جانے کے بعد میرے دل میں بھی ایک قرض تھا جو میں چکانا چاہتا تھا کہ جس شخصیت نے میرے جیسے بدتمیز شخص کو بھی تمیز کا سبق دیا جس نے مجھے سچی اور کھری صحافت کرنے اور پھر بہادری سے طوفانوں سے شناسائی کروائی ہو ۔خطرناک حالات میں بھی خطرناک ملک افغانستان میں جا کر اپنے وطن کی عزت کو بلند کرنے کا سبق پڑھایا ہو۔ پاک افغان امور پرمہارت میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔اس عظیم صحافی جن سے مسلسل میں سیکھ رہا ہوں کے لیے لب کشائی نہ کر سکوں ایسا ہو نہیں سکتا ۔ لہذا آج قلم اٹھاتے ہوئے سچی اور کھری باتیں لکھنے کا موقعہ میسرہوا ۔ گو کہ اس کا ردعمل بھی مجھے بدتمیز برگیڈ کی طرف سے کوئی اچھا نظر نہیں آتا مگر یہ ایک ایسا ایشو ہےجس کی وجہ سے میں نےاس عظیم صحافی سے مثبت صحافت کرنے کا سلیقہ سیکھا ہے۔
یوں تو نفیس لوگوں سے کم واسطہ رہا کیوںکہ میں خود کبھی بھی اپنے آپ کونفیس نہیں سمجھتا مگر گزشتہ سات سالوں میں صافی صاحب جیسے نقیس بلند اخلاق، اعلی خاندانی اقدار اور اپنائیت کا یہ عالم ہے کہ نہ ہی انہوں نے اپنی صحافت سے مجھے کبھی مائنس کیا اور نہ ہی میں انہیں چھوڑ کر کہیں جانے کی جرات کر سکا، میں ان کے جرگہ کو گزشتہ سات سالوں سے سپر وائیز کرتا ہوا آ رہا ہوں۔ گو کہ کئی دفعہ مجھ سے غلطیاں سرزد ہوئیں مگر بڑی محبت سے اصلاح کی اور سمجھایا جیسے کوئی بڑا بھائی سمجھا رہا ہو، عالم یہ ہے کہ کئ دفعہ مجھے اپنے شعبہ صحافت سے بڑی اچھی آفرز آئیں جب بھی ان تک خبر گئی کبھی یہ نہیں کہا کہ نہ جاو، صرف یہ کہا کہ میں سچی اور کھری صحافت کے رستے پر گامزن ہوں جو کہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے جسے میں فرض سمجھ کر ادا کررہا ہوں میرا خود کا کچھ پتہ نہیں کہیں تم اپنے اچھے فیوچر اور اپنے فائدے کا موقعہ نہ خراب کرو، مگر ہم بھی ایسے ہیں کہ ایسی شخصیت کو کھونا نہیں چاہتے ۔صافی صاحب کی شائستگی اور اندازبیاں کے متاثر کن پہلووں کو موضوع بحث بنا کر فخر محسوس کرنا یہ میرا اور میرے ایک ساتھی عادل اعوان کا معمول ہے
میں نا چیز انیس سو اٹھانوے سے صحافت کا بخار لیے پھرنے والے لوگوں میں اپنے آپ کو شمار کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔کافی لوگوں کے ساتھ صحافت کے میدان میں کام کیا ماسوائے سختی تلخی کے بہت ہی کم لوگ ایسے تھے جو شفیق بھی دیکھےجن میں بہت کم ایسے دیکھے جن میں سے یہ شخصیت اپنا ثانی نہیں رکھتی، جس کی صحافت اور جادوئی شخصیت کے ہم ایسے گرویدہ ہوئے ہیں کہ نہ چھوڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ وہ شخصیت بلند اخلاق،صاف ستھری صحافت ، شخصیت میں شائستگی ، دل آزاری سے ہر وقت بچنا،مہمان نوازی ایسی کہ جس کا کوئی ثانی نہیں، اپنی صحافت میں بہت سے خبروں کو اس وقت تک عوام کے سامنے نہ لانا جب تک ثبوتوں کی فائل پوری نہ ہو جائے، اس بات کا گواہ یہ نا چیز جس نے بہت دفعہ دیکھا کہ اتنے ثبوت ہونے کے با وجود صرف یہ کہنا کہ اللہ کو جواب بھی تو دینا ہوگا، جو شخصیت ایسے کمالات رکھتی ہو مختلف موضوعات کو صرف ایک فقرے میں پرو دینے کا کمال بھی کوئی ان سے سیکھے۔ ایسے انسان کے ساتھ کام کرنا ایک اعزاز سے کم نہیں ہو سکتا۔
کون کون سے ایشوز گنواوں کہ جن پر اس شخصیت کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا میں منفی پراپیگنڈہ نہ ہوا ہو، چاہے وہ حامد کرزئی کے پاکستان کے حق میں بیان پر کنٹروورسی ہو، سی پیک کے مغربی روٹ کا معاملہ ہو،محمود اچکزئی کی لسانیت کے معاملے پر بات کا اتنا بڑھ جانا کہ ان کی برگیڈ سے جان کی دھمکیوں تک کا آنا ہو، فاٹا کے حقوق کی آواز بلند کرنے کا معاملہ ہو جس پر بھی جان کی دھمکیوں کا مسلسل آنا، ایسے بہت سی ایشوز جس پراس شخصیت کی صحافت کا رخ صرف ایشوز پر مرکوز رہنا کہ کمال کر دینا۔ منزل کا تعین کرکے ہر ایشوز پے ہاتھ ڈالنااور ڈٹ جانا جس کی پہچان صرف یہ ہو کہ وہ شخصیت کی بجائے ایشوز پر فوکس کرنے کے اعلی معیار کو پا چکا ہو،ایسی ماں کو سلام کہ جس کے لال نے نفرت کا جواب ہمیشہ شائیستگی سے دیا ہو، ایسے بہت سے ایشوز پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کا نتیجہ یہ کہ ماں جیسی ہستی تک کو گالیاں دینے اور دلوانے والوں کو معاف کر دینا۔ بعض اوقات ایسا گمان ہوتا کہ شائد جواب دینے کی ہمت کمزوری ہو مگر جب ایشوز پر بہادری کے ساتھ کھڑا دیکھنا تو دل خوش ہو جانا، ان سب باتوں کے ثبوت لئے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے کہ کبھی بھی ان کی طرف سے منفی پراپیگنڈہ کا جواب منفی انداز میں نہیں دیا گیا۔ ایک دفعہ ضرور شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ میری ماں میری جنت ہے میں اسی جنت کا چراغ ہوں میری ماں کو گالیاں دینا اور میرا برداشت کرنا زندگی میں اس سے بڑے امتحان آئے جن کو عبور کرنے میں ٹس سے مس نہیں ہوا مگر اپنی جنت کو گالیاں دینے والوں کو ہر لحاظ سے تگڑہ جواب دینے کی ہمت ہونے کے باوجود بھی معاف کرجانا، اور مجھے بھی براداشت کاسبق دے دیا ، ایک واقعہ یہاں ضرور بیان کرو گا، صحافت سے منسلک ایک دوست کے ساتھ ایک نان ایشو جو کہ بعد میں ایشو بن گیا تلخی اس حد تک بڑھ گئی کہ ساتھی نے غصہ میں آ کر مجھے ماں کی گالی دے دی، ہم نے نہ کسی کی ماں کو کبھی گالی دی اور نہ کبھی گالی کھائی، میرے اندر طوفان برپا کرنے والے ساتھی کو میں نے ہر حال میں سبق سکھانے کی ٹھان لی چاہے کچھ بھی ہو جائے میں نے اپنے بہت سے لوفردوستوں کو گالی دینے والے ساتھی کا ہر صورت بندوست کرنے کا کہہ دیا، اس ساتھی کو بھی کسی نے مشورہ دیا کہ آپ صافی صاحب کے پاس جاو، وہی ہوا صافی صاحب نے اس کی بات سنی مجھے بار بار پیغام بھیجا آخر مجھے جانا ہی پڑا بہت باتیں ہوئی جہاں اس شخصیت نے مجھے پہلی دفعہ غصہ دکھایا اور کہا کہ خالد میری ماں کو لوگوں نے کتنی گالیاں دیں مجھے پتہ بھی ہے کہ کون کون ہے میں نے ان کو اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا؟ پہلی دفعہ ان کے غصے میں مجھےاس عظیم ماں کی محبت کا احساس واضع نظر آ رہا تھا، غصے میں مجھے کہا کہ تم معاف نہیں کر سکتے تو جاو جو مرضی کرو مارو اسے کیا کرو گے بس یہی ناں،میں چند لمحوں کے لیے خاموش ان کے جذبات اور چہرے کے تاثرات میں کھو گیا کہ یہ شخصیت تو اپنی ماں سے عشق کرتی ہے اور ٹوٹے ہوئے دل کی ساتھ مجھے اپنی ماں کو گالی دینے والے کو معاف کرنے کا کہہ رہی ہے ، واہ ماں تجھے سلام کہ جو تو نے ایسے بڑے انسان کو اپنی کوکھ سے پیدا کیا وہ ماں کتنی عظیم ہو گی۔ جس کا عظیم بیٹا مجھے چند لفظوں میں بہت کچھ سیکھا گیا۔ ان کے کہنے پر میں نے اپنے آپ کو بڑا سمجھایا کہ میں نے اس آدمی کو معاف کرنا ہے۔ میرے لیے اس لیے نہایت ہی مشکل کہ میں نے اپنی ماں سے دنیا میں عشق کیا سترہ سال تک کی عمرہ میں بھی میں اپنی ماں کیساتھ سوتا کہ ماں کے بنا مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ ماں کا میرے ساتھ عشق کی داستاں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ بالاآخر میں نے ان کا کہنا مانا اور گالی دینےوالے ساتھی کو معاف کر دیا، گو کہ میں معاف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھامگر سیکھانے والے کے انداز نے مجھے متاثر کیااور میں نے ان کی بات مانی۔
میں اس شخصیت کی شان میں نہ کوئی قصیدہ پڑھ رہا ہوں اور نہ ہی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہوں اور نہ ہی محبت کی کوئی داستان رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے سچ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو اچھی باتیں ان سے سیکھی ہیں بیان کی ہیں میں نے ابھی تک ان میں جو دیکھا من وعن بیان کردیا ہے۔ وضاحت کرنا اس لیے مناسب سمجھ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں حلف دینے کی روایت عام ہو چکی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر نان ایشو کو ایشو اور ہر ایشو کو نان ایشو کا رنگ دینے اور بات کا بتنگڑ بنانے اور لطیفہ بازی سے باز نہ آنے کا ہنر خوب رکھتے ہیں۔ کیوں ہمارے پاس فارغ وقت بہت ہوتا ہے۔ تنقید کرنا ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔ اگر بات کا بتنگڑ بنا کر کسی کی کردار کشی کی مہم شروع کرنی ہو تو بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو صحافت کو کاروباربنائے بیٹھے ہیں۔ اورکسی بھی شخصیت پر بحث مباحثہ کرتے اور ذاتیات پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں مگر ہم نے صافی صاحب جیسی شخصیت سے ایشوز پر فوکس کرنا سیکھا ہے نہ کہ شخصیتوں پر، ایسے بہت سے لوگ راتوں کو اپنا شو لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جن کا سچ اور جھوٹ ٹی وی ا سکرینوں پر عیاں ہوتا ہے۔ جو ہر وقت کسی خاص فرد اور اس کی پارٹی کے قصیدے پڑھتے اور کسی بھی شخصیت کی عزت کا فالودہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور مال کماتےنظر آتے ہیں مگر کیا ہے کہ وہ لوگ ان لوگوں کو نظر نہیں آتے جنہوں نے بدبو داراور اندھی عینک جس کے شیشے عرصہ دراز سے صاف نہیں کیے ہوتے لگائی ہوتی ہے۔ سلیم خان صافی کی صحافت کسی فرد واحد کی پوشی سے عبارت ہر گز ہر گز نہیں ہے۔ جو ان کو باقاعدہ پڑھنے اور سننے والے ہیں وہ سب جانتے ہیں مگر ایسے لوگوں کو انکے گھر والے بھی ناکارہ، زنگ آلود،بدبو دار اور آوارہ سمجھتے ہیں ان کو خوشبو کا کیا پتہ کیونکہ انہوں نے بدبو کے کھیل رچانے ہوتے ہیں مگر اس بار بدبو دار کھیل میں خو شبو کے جھونکے ایسے ملے جنہوں نے ایسا سچ بولنے کی ہمت میرے جیسے ناچیز کو بھی بلا آخر دے ہی دی جو میں نے تحریر کی۔ سلام ایسے با کمال صحافی سلیم صافی کی صحافت کوسلام۔۔۔۔
نوٹ: اس تحریر پر ردعمل بدبودار لوگوں کی طرف سے بدبودار آئے گا اور مثبت سوچ کے حامل افراد کی طرف سے خوشبودار ہو گا۔ شکریہ
تحریر: چوہدری خالد عمر مریم اورنگزیب سیاسی حلقوں میں ایک طاقتور آواز پنجاب میں اب سیاسی مخالفین کو ایک نہیں دو مریم کا سامنا کرنا پڑے گا۔مریم نواز ج...